33 جنگی حکمت عملی | منیر بلوچ

0
255

( کتاب تبصرہ )

زیر نظر کتاب رابرٹ گرین کی تحریر کردہ ہےجسے عارف صدیقی نے اردو ترجمہ کرکے شائع کیا۔ اس کتاب میں 33 جنگی حکمت عملیوں کے بارے میں بیان کیا گیا ہے جبکہ اس کتاب کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

حصہ اول میں چار عنوان پر بحث کیا گیا ہے، حصہ دوئم جو تنظیمی جنگ کے بارے میں ہے اس حصے میں تین عنوان کو شامل بحث کیا گیا ہے۔ حصہ سوئم دفاعی جنگ کے بارے میں ہے جہاں چار عنوانات موضوع بحث ہیں۔حصہ چہارم میں گیارہ موضوعات شامل ہیں جبکہ پانچویں اور آخری حصے میں غیر روایتی جنگ جسے ڈرٹی وار کہا جاتاہے جو دماغی و نفسیاتی جنگ کا حصہ ہے شامل کتاب ہے جس کے گیارہ مضمون ہے۔

حصہ اؤل میں کچھ ایسے بنیادی افعال کا تذکرہ موجود ہے جو کسی انسان کی ضرورت ہے، کسی تنظیمی قیادت کے لئے ناگزیر ہے۔کوئی بھی انسان خامیوں سے مبرا نہیں ہوتا لیکن ان خامیوں کو نظر انداز کرکے پر سکونہ ہونا ایک انسان و قیادت کو نقصان سے دو چار کردیتا ہے ۔اس لئے اسے سب سے پہلے اپنے آپ سے، اپنے اندرونی دشمن سے لڑائی لڑنا پڑتی ہے. اپنے دشمن کے خلاف سوچ کو وسیع کرکے نئی حکمت عملی کی بنیاد اور اپنے دوستوں اور اتحادیوں کے دل میں دشمن کے لئے نفرت پیدا کرنے کی حکمت عملی اچھی شئے ہے، حاضر دماغی، اپنے آپ پر انحصار ،ہنگامی اور اشد ضروری کام ، بے وقوفوں کو برداشت کرنا اور خوف کے احساس کا خاتمہ حصہ اول کے اہم حصے ہیں ، تنازعات کاسامناکرنااور اپنا وقت چھوٹے کاموں کے بجائے بڑے کاموں پر خرچ کرنا چاہئیے۔مصنف کہتا ہے کہ کوئی جنگ آخری نہیں ہوتی اور کسی جنگی اصول، پر عمل نہیں ہوتا اس لئے ہر جنگجو میں یہ فن موجود ہو کہ وہ جدید دور کے مطابق اپنی جنگی حکمت عملیوں کو تبدیل کریں تاکہ جنگ میں اپنی چالیں چلنے اور جنگ میں حالات کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کیا جاسکے۔
مصنف کہتا ہے کہ سب کچھ داؤ پر لگا کر حملہ کردیں اور موت کے خوف کا خاتمہ کریں کیونکہ موت کی کوئی اہمیت نہیں لیکن ایک شکست خوردہ زندگی جینا روز مرنے جیسا ہے۔صفحہ 36(نپولین بونا پارٹ)

حصہ دوئم جو تنظیمی جنگ(گوریلا جنگ) کے متعلق ہے۔ تین موضوعات پر مشتمل ہے۔
کوئی بھی تنظیم ایک چین اینڈ کمانڈ پر مشتمل ہوتی ہے اور ہر عہدے دار اپنی ذمہ داریوں متعلق خدمات تنظیم کے سپرد کرتا ہے اور جمہوری طریقہ کار بروئے کار لا کر تنظیمی امور سر انجام دیتا ہے لیکن ایک جنگی تنظیم ایک مختلف پروسس سے گزرتی ہے جس میں اعلیٰ قیادت کو اعتدال پسندانہ رویے کے ذریعے تنظیمی امور کو آگے لیجانا ہوتا ہے کیونکہ تنظیموں میں آمرانہ روش اور زیادہ نرمی نہ صرف قیادت کو نقصان پہنچاتی ہے بلکہ تنظیم کو بھی نقصان کا احتمال ہوسکتا ہے۔
مصنف کہتے ہیں درست لوگوں کو درست مقام پر تعینات کریں ایسے لوگ جو آپکے خیالات پر عمل کریں اور بالکل کٹھ پتلی نہ ہوں۔
مذید کہتے ہیں کہ لوگوں میں یہ احساس پیدا کریں کہ وہ ہر عمل کا حصہ ہے لیکن اجتماعی فیصلہ سازی سے بچیں۔ خود کو انصاف کا نمونہ بنا کر پیش کریں لیکن کبھی اصل اختیار اور طاقت سے دستبردار نہ ہوں۔
صفحہ 41
قیادت کی خوبیوں کو اجاگر کرنے کے لئے مصنف کہتا ہے کہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپکی بنائی ہوئی ٹیم آپ کے فیصلوں پر غیر ضروری طور پر اثر انداز نہ ہو۔
مزید مشورہ دیتے ہیں کہ قیادت اپنے تنظیم میں موجود خود غرض اور شرپسند عناصر کو پہچانیں اور انہیں پنپنے مت دیں۔
صفحہ،43
وہ اجتماعی جنگ حکمت عملی کے خلاف ہے وہ کہتا ہے کہ اجتماعی حکمت عملی جنگی حکمت عملی کی خلاف ورزی ہے۔
تنظیم میں ابتری اور افراتفری کو قابو پانے کے لئے مصنف مفید مشوروں سے نوازتا ہے وہ کہتاہے کہ تنظیم میں اپنے طاقت کو بانٹ دیں اور انہیں صرف یہ بتائیں کہ کیا کرنا ہے یہ مت بتائیں کہ کیسے کرنا ہے۔
ٹیم کے ارکان کا‌ حوصلہ بڑھانا ، ان کے روابط بڑھانا انہیں اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ کیا کرنا ہے۔
مصنف صفحہ نمبر 51 میں کہتے ہیں کہ اپنے سپاہیوں کے ساتھ گہری دوستی اور سب کے ساتھ برابری کا برتاؤ نظم و ضبط کو تباہ کردیں گا۔
جنگ جیتنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ کے پاس ایک مقصد ہو اور اس مقصد کو مقدس جنگ میں تبدیل کرنے کا فن قیادت کو آنا چاہیے کہ وہ کس طرح یک مشت کرکے اپنے سپاہیوں کا نہ صرف مورال بلند کرسکتا ہے بلکہ وہ انہیں ایک عظیم مقصد کا احساس بیدار کرکے جنگ کو مقدس بناسکتا ہے۔

رابرٹ گرین آٹھ سنہری اصول کا ذکر کرتا ہے کہ ان سنہری اصولوں پر کار بند رہ کر قیادت اپنے سپاہیوں میں جذبہ بیدار کرسکتا ہے۔
1۔اپنی ٹیم کو کسی مقصد کے گرد متحد کریں انہیں کسی نظرئیے کے لئے لڑائیں۔
2۔لوگوں کی ضروریات کا خیال رکھیں۔
3۔بالکل سامنے رہ کر قیادت کریں۔
4۔ان کی توانائی کو مرکوز رکھیں۔
5۔ان کے جذبات سے کھیلیں۔
6۔سختی اور نرمی کا امتزاج رکھیں۔
7۔ٹیم کی ایک تاریخ بنائیں۔
8۔شکایات کرنے والوں کے ساتھ بے رحمی سے پیش آئیں۔

کتاب کا تیسرا حصہ دفاعی طرز جنگ کے متعلق ہے۔
اس باب میں مصنف ان امور کی جانب توجہ دلاتا ہے کہ وسائل کا استعمال کیسے کرنا ہے۔مقاصد اور وسائل میں توازن ہونا چاہئیے۔ دفاعی طرز میں یہ جاننا ضروری ہے کہ کب پسپائی اختیار کرنا ہے اور کب دشمن پر حملہ کرکے اسے کاری ضرب لگانا ہے۔جنگ نہ صرف ایک علم ہے بلکہ جنگ حقائق کا نام ہے جو نہ صرف دوست و دشمن کی پہچان کراتا ہے بلکہ زندگی جینے کا شعور و سلیقہ بھی عطا کرتا ہے۔دفاعی طرز کی جنگ میں دشمن کو وہی دینا ہےجو وہ آپ کو دیتا ہے لیکن ضروری ہے کہ دشمن کے فطری اندیشوں اور خوف سے فائدہ اٹھا کر دشمن کو دھوکے میں رکھ کر اپنی طاقت دکھانا چاہئیے۔

دشمن پر اپنی دھاک بٹھانے کے لئے مصنف کچھ تجاویز پیش کرتا ہے کہ دشمن پر ایسا تاثر پیدا کریں کہ آپ کمزورہونے کے باوجود کمزور نہیں ہے دشمنوں کو کبھی اپنے کمزوری کا علم نہ ہونے دیں۔دشمن کو ایسا سوچنے پر مجبور کریں کہ وہ یہ سمجھے کہ اگر آپ ہار بھی گئے تو دشمن کو ساتھ لے ڈوبیں گے ، آپکی کمزوری اور پیچھا چھڑانا آپکے لئے تباہی کا نسخہ ہے۔ اپنے خوف کو دشمن میں منتقل کرکے اسے ضرب لگائیں تاکہ اسے احساس ہو کہ آپ کسی حد تک بھی جاسکتے ہیں۔اسکی نفسیاتی کمزوریوں سے فائدہ اٹھائیں اور کبھی ایسی چالیں چلیں کہ دشمن کو کسی اور کے ذریعے اپنی حکمت عملی کے بارے میں بتائیں تاکہ وہ خوفزدہ ہوجائے۔

باب چہارم جارحانہ طرز جنگ کے متعلق ہے جس کے گیارہ مضامین ہے۔
جارحانہ طرز جنگی حکمت عملی کے کچھ اصول ہے جن کو مصنف نے اپنی کتاب میں جگہ دی ہے۔ مصنف کہتا ہے کہ اپنی توجہ ہمیشہ ہدف پر رکھیں اور ہدف پر توجہ دینے کے لئے ضروری اقدام اٹھانا نہایت ہی موثر امر ہے۔کوشش ہو کہ دشمن کی جڑ پر وار کرنے کی کوشش کریں اور کبھی ظاہری چیز کو حقیقیت سمجھنے کی حماقت نہ کریں۔ جب کوئی جنگ آپ پر مسلط ہے تو دنیا کو ہمیشہ دشمن کی نظر سے دیکھنے کی کوشش کریں اور اس جنگ میں آپ کا جو بھی رویہ ہو اس کے اثرات سیاسی ہونے چاہئیے۔خفیہ معلومات کی حکمت عملی کے تحت دشمن کی پہچان ، اسکی سوچ اور ارادوں کو سمجھنے کے علاوہ لوگوں کا مطالعہ کریں۔

اچانک حملے کے ذریعے دشمن کی کمزور پہلو تلاش کرکے مزاحمت کو کچلنا نہایت ہی ضروری ہے کیونکہ جارحانہ جنگ میں عمل میں برق رفتاری اور قوت فیصلے کی طاقت دشمن کو شکست کے دہانے پر پہنچاتی ہے۔ مصنف صفحہ نمبر ۱۱۱ میں کہتے ہیں کہ مئی ۱۹۴۰ میں جرمن آرمی نے اچانک حملے کی تکنیک استعمال کرتے ہوئے فرانس اور دوسرے زیریں ممالک پر قبضہ کرلیا۔ناقابل یقین تیز رفتار ٹینکوں اور لڑاکا طیاروں کی انتہائی پیش قدمی کی بدولت یہ دنیا کی فوجی تاریخ کی تیز رفتار ترین اور سب سے تباہ کن فتح ثابت ہوئی۔

دشمن کو دباؤ میں رکھ کر جنگ پر کنٹرول حاصل کرنا اور جنگی میدان کا تعین اپنی مرضی سے طے کرکے دشمن پر غلبہ حاصل کرکے اسکی دکھتی رگ پر وار کرنا ،دشمن کو مکمل شکست دینے کے لئے اسے تقسیم کرکے فتح پانا اور رابطوں کو منقطع کرنا اور دشمن کی سمت بدل کر مختلف اطراف سے حملہ آور ہونا اس باب کے اہم موضوعات ہیں۔
مصنف اس کتاب میں جنگ کے متعلق کچھ مفید مشوروں سے نوازتے ہوئے کہتے ہیں کہ دشمن کو تباہ کرنے کے بجائے کمزور کرنے کی حکمت عملی پر کام کرنا چاہئیے۔جبکہ ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعے جنگ کا نتیجہ اپنے حق میں بدلنے کا بھی مشورہ دیتے ہیں۔

نفسیاتی طور پر جنگ کیسے جیتی جاتی ہے مصنف اس حوالے سے چار اصول کے بارے میں بتاتے ہیں جن میں کثیر الجہتی پالیسی، تذبذب،افراتفری اور لچک کا ذکر ہے۔باب کے آخری مضمون میں معاملات انجام تک پہنچانے کے لئے کچھ تجاویز دیتا ہے وہ کہتا ہے کہ منصوبے کا آغاز ہمیشہ منصوبہ بندی کے ساتھ ہونا چاہئیے اور جنگی رہنماوں کے لئے یہ علم رکھنا بہت ضروری ہے کہ کب انہیں جنگ روک کر مذاکرات کی طرف جانا ہے۔

باب چہارم کا ایک عنوان سیاسی و سفارتی جنگ کے متعلق ہے۔جس میں مصنف ان امور پر توجہ دلاتا ہے کہ جنگ کے دوران فائدہ حاصل کرنے کے لئے مذاکرات کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے اور ایسے مذاکرات میں ہمیشہ سخت گیر موقف رکھنا چاہئیے تاکہ مذاکرات کے دوران دشمن کو آپکی پوزیشن کا ادراک ہو اور وہ اس مذاکرات سے فائدہ حاصل نہ کرسکیں۔
مذاکرات ہمیشہ طاقت اور بہتر مقام حاصل کرنے کے لئے ہوتے ہیں اور اس مذاکرات میں اپنی شرائط منوانے کے لئے لازمی ہے کہ دشمن پر بے رحمانہ دباؤ اور پیش قدمی کو جاری رکھنا چاہئیے۔صرف عملی اقدامات اور پیش قدمی سے دشمن پر دباؤ برقرار رکھا جاسکتا ہے۔
مصنف برطانوی سفارت کار نکلسن کا حوالہ دیکر کہتے ہیں کہ دنیا میں دو طرح کے مذاکرات کار ہوتے ہیں۔ جنگجو اور دکاندار یا بیوپاری۔جنگجو مذاکرات کار وقت حاصل کرنے کے لئے مذاکرات کرتے ہیں جبکہ دکاندار فریقین کا اعتماد حاصل کرنے کے لئے مذاکرات کرتے ہیں۔ (صفحہ 154)

باب نمبر پانچ غیر روایتی جنگ یعنی ڈرٹی وار کے متعلق ہے جس میں نفسیاتی اور سیاسی چالبازیوں کے ذریعے انوکھے حربے استعمال کئے جاتے ہیں اور دشمن پر نفسیاتی گہرا تنگ کرکے اسے شکست سے دو چار کیا جاتا ہے۔

دشمن کو نفسیاتی مریض بنانے کا فن ہی اس طریقہ جنگ کا مرکز و منبع ہے۔ اچانک حملے کے ذریعے دہشت پھیلانا،ایسی چالیں چلنا جس کی دشمن کو بالکل بھی توقع نہ ہو، اسکے علاوہ اخلاقی برتری حاصل کرنے کے لئے دشمن کو بدنام کرنے کے لئے اخلاقی برتری کا فن سیکھ کر دشمن کو اخلاقی شکست دینا نفسیاتی جنگ کا خاصہ ہے۔۔

اس جنگ میں مصنف کہتا ہے کہ کوئی ہدف نہ رکھیں بلکہ وہ اس جنگ میں برتری حاصل کرنے کے لئے چھ اہم طریقے تجویز کرتا ہے۔
۱۔نقلی محاذ جنگ
۲۔نقلی حملہ جس میں حملے کی جگہ کے بجائے ہدف کہیں اور ظاہر کریں۔
۳۔پوشیدہ ہونا
۴۔واقعات کی ذہنی ترتیب۔ ترتیب سے حملہ کریں جب اندازہ لگ جائے تو ترتیب توڑ دیں۔
۵۔گمراہ کن معلومات
۶۔فریب میں چھپا فریب
گوریلا جنگ کی اصل طاقت اور برتری نفسیاتی اثرات میں پنہاں ہے۔گوریلا جنگ میں وقت کو بطور ہتھیار استعمال کرکے جنگ کو طول دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔

اپنے مفادات کو مد نظر رکھ کر مسلسل اتحادی تلاش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جو وقت کے لحاظ سے آپکی ضروریات کو پورا کریں تاکہ آپ کی توانائی مختلف جہتوں پر اثر انداز ہو۔ مصنف کہتا ہے کہ اندرونی و بیرونی محاذ کے ذریعے دشمن کو دفاع پر مجبور کیا جائے تاکہ وہ خود کو تباہ کرسکیں۔ لیکن جذباتی اتحاد کے بجائے ایسے دوست تلاش کریں جو ضرورت کے مطابق ہو۔
بے صبری کے بجائے قدم قدم آگے بڑھیں جلدی فتح حاصل کرنے کی کوشش محض غلطیاں کرواتے ہیں۔مخالفین کے دل و دماغ میں گھس کر دشمن کو اندر سے تباہ کردیں اس کے لئے دشمن کے صف میں جگہ بنا کر خوف پھیلائیں۔
دشمن پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے اپنے جارحانہ سوچ کو خفیہ رکھیں اور اپنی کمزوری کا مظاہرہ کریں اور غیر فعال جارحیت کی تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے خود کو دوسروں سے ممتاز کرنے کی کوشش کریں۔اپنے حواس کو قابو میں رکھ کر ایسے دہشت زدہ افعال سر انجام دئیے جائیں جس سے دشمن میں بے یقینی اور افراتفری جنم لیں۔

حروف آخر:

پانچ ابواب پر مشتمل تینتیس جنگی حکمت عملی ایک ایسی کتاب ہے جو ہر دور کے جنگجوؤں کے لئے ایک تکنیکی و نفسیاتی نسخہ ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ اس لئے بھی ایک نو آبادیاتی نظام سے متاثرہ سماج کے لئے ضروری ہے کیونکہ اس میں گوریلا جنگ،دفاعی جنگ اور جارحانہ جنگ کے علاوہ نفسیاتی، سیاسی و سفارتی پہلوؤں کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ مختصر یہ کہ جنگ سے منسلک افراد و سیاسی کارکنان اس کتاب کا مطالعہ ضرور کریں کیونکہ جنگ سیاست کا حصہ ہے اور سیاست کب کیا رنگ میں سامنے آئیں کوئی پیشن گوئی نہیں کی جاسکتی اس لئے ہر طرح کے ہنگامی حالات میں تیار رہنا ضروری ہے اور جنگ کسی بھی وقت کس خطے کو کس ملک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔

٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here