یورپ میں مصنوعی ذہانت سے متعلق نئے قوانین بنانے پر اتفاق ہو گیا ہے جس میں حکومتوں کی جانب سے مصنوعی ذہانت کا بائیومیٹرک سسٹم میں استعمال اور چیٹ جی پی ٹی جیسے مصنوعی ذہانت سے لیس سافٹ وئیرز سے پر نئے ضوابط بنانا بھی شامل ہیں۔
اس اتفاقِ رائے کے بعد یورپی یونین دنیا کی پہلی بڑی طاقت ہوگی جو مصنوعی ذہانت سے متعلق ضوابط نافذ کرنے جا رہی ہے۔
جمعے کا معاہدہ، یورپی حکومتوں اور یورپی پارلیمان کے ارکان کے مابین 15 گھنٹوں پر محیط مذاکرات کے بعد سامنے آیا۔ دونوں آئندہ دنوں میں قوانین کی تفصیلات طے کریں گے۔
یورپئین کمشنر تھیرئیر بریٹن نے ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ اس معاملے میں یورپ نے سبقت حاصل کرتے ہوئے، اس کی اہمیت کو سمجھا ہے اور دنیا کے سامنے ایک معیار طے کردیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک تاریخی دن ہے۔
اس معاہدے کے تحت چیٹ جی پی ٹی یا دیگر مصنوعی ذہانت کے نظام مارکیٹ میں اپنے پراڈکٹ کے لانچ سے قبل ان کے ابتدائی ماڈلز کو شفافیت سے متعلق ضوابط سے ہم آہنگ کریں گی۔
ان میں تکنیکی دستاویز تیار کرنا، یورپی یونین کے کاپی رائٹس ایکٹ کی پابندی اور مصنوعی ذہانت کے ماڈلز کو کس طرح ٹریننگ دی گئی ہے، اس کی تفصیلات فراہم کرنا بھی شامل ہے۔
اس کے علاوہ اہم نوعیت کے مصنوعی ذہانت سے متعل ماڈلز، جن میں نظام میں خلل پیدا کرنے کا خطرہ ہوگا، وہ اس سلسلے میں تشخیص، تخفیف اور ٹیسٹنگ کے علاوہ یورپی کمیشن کو اہم نوعیت کے واقعات کے رونما ہونے کی رپورٹ کریں گے، جب کہ سائبر سیکیورٹی اور اپنی توانائی کے استعمال میں بہتری لائیں گے۔
حالیہ پیش رفت کے بعد حکومتیں کسی ناخوش گوار واقعے کے رونما ہونے کی صورت میں بائیومیٹرک سرویلنس کر سکتی ہیں۔
دیگر صورت میں اگر دہشت گردی کا خدشہ ہونے کی صورت میں یا خوف ناک جرائم کے مشتبہ افراد کی تفتیش کے لیے بھی اسے استعمال کیا جاسکے گا۔
اس معاہدے میں کاگنیٹیو بی ہیوئیرل مینی پولیشن یعنی انسانوں کی طرح کمپیوٹرز میں سوچنے کی صلاحیت پیدا کرنے، انٹرنیٹ سے کسی کی بھی تصاویر کے استعمال سمیت کئی پریکٹسز پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
اس کے علاوہ سی سی ٹی وی فوٹیج اور بائیومیٹرک نظام میں ایسی تخصیص کو بھی خلافِ قواعد قرار دیا گیا ہے جس کا تعلق سیاسی، مذہبی، فلسفیانہ خیالات، جنسی رویے یا نسل سے ہو۔
کاروباری گروہ ڈیجیٹل یورپ نے ان ضوابط پر تنقید کی ہے اور اسے کمپنیوں پر مزید بوجھ لادنے کے مترادف قرار دیا ہے۔
جب کہ پرائویسی کے لیے کام کرنے والے ایک گروپ نے حکومتوں کو عوام کے چہرے شناخت کرنے کی ٹیکنالوجی استعمال کرنے کی اجازت دینے پر تنقید کی ہے۔