بلوچستان سے تعلق رکھنے والے صحافیوں سینئر وکلاءاور سیاسی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں صحافیوں کو درپیش مسائل کے حل کیلئے تمام مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کو کردار ادا کرنا ہو گا تاکہ عوام تک صحیح اور مستند خبروں کو پہنچایا جاسکے۔ بلوچستان میں اب تک 43صحافی اپنی پیشہ ورانہ خدمات کی انجام دہی کے دوران مارے جاچکے ہیں جن میں سے بیشتر کو پسند نہ پسند خبروں کی اشاعت پر ٹارگٹ کیا گیا ہے مگر اس کے باوجود بھی صوبے میں صحافیوں کے تحفظ کے لئے قوانین نافذ نہیں کئے جارہے اور نہ ہی ان پر کسی قسم کا عملدرآمد ہورہا ہے۔
ان خیالات کا اظہارکوئٹہ پریس کلب میں غیر سرکاری تنظیم پاکستان پریس فائونڈیشن کے زیر اہتمام منعقدہ ایک روزہ تربیتی ورکشاپ اور سیمینار کے دوران خطاب کرتے ہوئے کیا۔
تربیتی ورکشاپ میں کوئٹہ کے مختلف میڈیا ہائوسز اور اداروں کی جانب سے 15سے زائد صحافیوں اور میڈیا ورکرز شریک ہوئے جنہیں پاکستان میں صحافیوں کے تحفظ سے متعلق قوانین سے آگاہ کیا گیا۔
پاکستان پریس فائونڈیشن کی جانب سے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے صدر عرفان سعید نے کہا کہ صوبے میں امن و امان کی مخدوش صورتحال کے دوران صحافیوں نے بھی بے حد مشکلات کا سامنا کیا اس دوران بلوچستان کے43کے قریب صحافی اور میڈیا ورکرز اپنی پیشہ ورانہ خدمات کی انجام دہی کے دوران مارے گئے جن میں سے اکثریت کو محض پسند نہ پسند خبروں کی اشاعت کی پاداش میں باقاعدہ ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔
انھوں نے کہا کہ بلوچستان میں آج بھی صحافیوں کے تحفظ کیلئے مناسب قانون سازی نہیں کی گئی ہے جو قوانین بنائے بھی گئے ہیں وہ غیر موثر ہیں جس کی وجہ سے صحافیوں خود کو محفوظ نہیں سمجھتے نجی ادارے اور متعلقہ سرکاری محکمے اس بابت ملکر صحافیوں کو تحفظ کی فراہمی سے متعلق قوانین پر کام کریں تاکہ بلوچستان کے صحافی بلا خوف و خطر بلا امتیاز اپنی خدمات انجام دے سکیں ۔
اس موقع پر کوئٹہ پریس کلب کے صدر عبدالخالق رند نے کہا کہ بلوچستان میں صحافیوں کے تحفظ سے متعلق مناسب قوانین نہ ہونے سے ہر سال یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے والے میڈیا جرنلزم کے طلباءوطا لبات خوف کے باعث پیشہ ورانہ خدمات کی انجام دہی سے ڈرتے ہوئے پیشے سے وابستہ نہیں ہوپاتے جس کی وجہ سے بلوچستان میں ورکنگ جرنلسٹس کو شدید مشکلات درپیش ہیں ۔
اس موقع پر بلوچستان بار کونسل کے وائس چیئر مین اور ممبر جوڈیشل کونسل راحب خان بلیدی نے کہا کہ وکلاءتنظیموں نے ہمیشہ صحافیوں کے تحفظ آزادانہ صحافت کے لئے جدوجہد کی ہے اور بھرپور کردار ادا کیا ہے ملک میں تحریک انصاف کی حکومت کے دوران پیکا ایکٹ کے نفاذ کے خلاف پیش قدمی کرتے ہوئے بلوچستان ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی مستقبل میں بھی صحافیوں کے تحفظ کے لئے ہر ممکن اقدامات میں وہ شانہ بشانہ کھڑے ہیں ۔
اس موقع پر ڈائریکٹر منسٹری آف ہیومن رائٹس اسفند یار بادینی اور دیگر نے بھی خطاب کیاجبکہ تقریب کے اختتام پر ماہر قانون لالا حسن نے شرکاءکا شکریہ ادا کیا۔