اسلام آباد: فیض آباد دھرنا کے ذمہ داران کے تعین کیلئے کمیشن تشکیل دیدی گئی

0
276

پاکستان کے دارلحکومت اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر واقع فیض آباد پل پر مذہبی جماعت تحریکِ لبیک نے نومبر 2017 میں ارکان پارلیمان کے حلف میں مبینہ ترمیم کے خلاف دھرنا دیا تھا۔ پرامن طور پر دھرنے کے خاتمے کی کوششوں میں ناکامی اور اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے فیض آباد کا علاقہ خالی کروانے کے حکم کے بعد حکومت نے آپریشن کیا تھا، جس میں درجنوں افراد زخمی ہوئے تھے تاہم دھرنا جاری رہا تھا۔

بعدازاں 27 نومبر 2017 کو حکومت نے وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے سمیت دھرنے کے شرکا کے تمام مطالبات تسلیم کر لیے تھے، جس میں آپریشن کے دوران گرفتار کیے گئے کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ بھی شامل تھا۔

اب پاکستان کی وفاقی حکومت نے فیض آباد دھرنا کے ذمہ داران کے تعین کے لیے تین رکنی کمیشن تشکیل دے دیا ہے جو دو ماہ میں اپنی تحقیقات مکمل کرے گا۔

وفاقی حکومت کی طرف سے قائم کیا گیا یہ کمیشن پبلک آفس ہولڈرز، خفیہ اداروں، سرکاری ملازمین یا دیگر افراد کے اس دھرنے میں ملوث ہونے کے حوالے سے حقائق کا تعین کرے گا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ یہ کمیشن اس دھرنے کے وقت ملک کے وزیر اعظم، آرمی چیف اور چیف جسٹس کے عہدوں پر فائز افراد کو بھی طلب کرسکتا ہے۔

اٹارنی جنرل آف پاکستان نے بدھ کو فیض آباد دھرنے سے متعلق از خود نوٹس پر عمل درآمد سے متعلق سماعت کے دوران کمیشن کی تشکیل کا اعلامیہ پیش کیا، جس کے مطابق یہ کمیشن، کمیشن آف انکوائری ایکٹ کے تحت تشکیل دیا گیا ہے اور دو ماہ میں اپنی تحقیقات مکمل کرے گا اور مستقبل میں ایسے ممکنہ دھرنوں سے نمٹنے سے متعلق تجاویز بھی وفاقی حکومت کو دے گا۔

سابق انسپکٹر جنرل آف پولیس اختر شاہ اس تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ ہوں گے جبکہ اس میں ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ کے علاوہ سابق آئی جی اسلام آباد طاہر عالم خان بھی شامل ہیں۔

یاد رہے کہ اکتوبر 2023 میں میں وفاقی حکومت نے فیض آباد دھرنے کے ذمہ داران کے تعین کے لیے ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنائی تھی تاہم عدالت نے اس کمیٹی کے اختیارات کے حوالے سے برہمی کا اظہار کیا تھا۔

بدھ کو سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے ہیں کہ یہ کمیشن عوام کی انکھوں میں دھول بھی جھونک سکتا ہے اور ملک میں نیا ٹرینڈ بھی قائم کر سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اگر کوئی تفتیشی چاہے تو ملزم سے سچ اگلوا سکتا ہے اور اگر سچ سامنے نہ لانا ہو تو آئی جی بھی تفتیش کرلے تو وہ ایسا نہیں کر سکتا۔‘

چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے قائم کیا گیا یہ کمیشن اس وقت کے وزیر اعظم، آرمی چیف اور اس وقت کے چیف جسٹس کو بھی طلب کر سکتا ہے۔

عدالت کا کہنا تھا کہ کمیشن ان افراد کو بھی بلانے کا اختیار رکھتا ہے جن کے نام پیمرا کے سابق چیئرمین ابصار عالم نے اپنے بیان میں دیے تھے۔

ابصار عالم نے سپریم کورٹ میں دیے گئے بیان میں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کا بھی نام لیا تھا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here