دسمبر 2019 میں چین سے شروع ہونے والے کورونا وائرس سے متعلق ہر روز نئی تحقیق سامنے آنے سے مرض کے حوالے سے کافی حیران کن معلومات سامنے آ رہی ہے، جس سے وبا کو سمجھنے میں آسانی ہو رہی ہے۔
اگرچہ یہ مانا جاتا ہے کہ کورونا وائرس چین سے شروع ہوا تھا لیکن اب امریکا، فرانس اور اٹلی جیسے ممالک کے ماہرین نے بھی انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے بھی گزشتہ سال نومبر اور دسمبر میں کورونا کی علامات والے مریضوں کا علاج کیا تھا تاہم اس وقت انہیں کورونا کا علم نہیں تھا اس لیے انہوں نے مذکورہ مریضوں کے حوالے سے کوئی بیان نہیں دیا۔
اسی طرح متعدد تحقیقات میں یہ بات کہی جا چکی ہے کہ کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے افراد کے صحت یاب ہونے کے باوجود کورونا کا وائرس ان کے پھیپھڑوں، دل گردے اور آنتوں میں رہ جانے سمیت دیگر جسمانی اعضا میں بھی رہ سکتا ہے۔
تحقیقات میں بتایا جا چکا ہے کہ کورونا وائرس انسانی آنکھ میں بھی رہ سکتا ہے اور اب چینی ماہرین نے ایک تحقیق میں دعویٰ کیا ہے کہ کورونا کے صحت یاب ہونے والے مرد حضرات کے مادہ منویہ یا اسپرم میں وائرس کئی دن تک رہ سکتا ہے۔
تحقیقاتی جریدے جاما نیٹ ورک میں شائع تحقیق میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ صحت یاب ہونے کے باوجود کورونا سے متاثر ہونے والے مرد حضرات کے اسپرم میں کورونا کا وائرس رہ جانے کے ثبوت ملے ہیں۔
چین کے شانگچیو میونسپل ہسپتال کے ماہرین کی جانب سے محدود پیمانے پر کی جانے والی تحقیق سے پتہ چلا کہ صحت یاب ہوجانے کے باوجود بعض مرد حضرات کے مادہ منویہ میں کورونا کا وائرس موجود رہ سکتا ہے۔
ماہرین نے ایسے 38 مرد حضرات کے مادہ منویہ یا اسپرم کے سیمپلز کا جائزہ لیا جن میں سے کچھ مرد حضرات کورونا کا شکار بن چکے تھے جب کہ کچھ افراد بیماری سے صحت یاب ہو چکے تھے۔
چینی ماہرین کا کہنا تھا کہ اگرچہ مذکورہ تحقیق انتہائی کم افراد پر کی گئی تاہم اس سے پتہ چلا کہ صحت یاب ہوجانے والے مریضوں کے اسپرم میں کورونا کا وائرس رہ جاتا ہے اور یہ واضح نہیں ہے کہ کتنی دیر تک وائرس مرد حضرات کے مادہ منویہ میں رہ سکتا ہے۔
ماہرین نے اپنی رپورٹ میں یہ نہیں بتایا کہ مرد حضرات کے اسپرم میں کورونا کا وائرس رہ جانے سے کیا وہ جنسی تعلقات سے منتقل بھی ہوسکتا ہے یا نہیں، تاہم ماہرین نے اس بات پر زور دیا کہ مذکورہ تحقیق کو بنیاد بنا کر اس پر مزید تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔
چینی ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کسی بھی کورونا سے متاثر مرد کے اسپرم میں کس وقت کورونا منتقل ہوتا ہے اور وہ کتنی دیر تک وہاں رہ سکتا ہے اور یہ بھی دیکھا جائے کہ کہیں جنسی تعلقات سے اسپرم کے ذریعے کورونا منتقل تو نہیں ہوتا؟
دوسری جانب دنیا کے مختلف ممالک کے ماہرین نے بھی اس تحقیق کو دلچسپ قرار دیتے ہوئے کہا کہ چینی ماہرین کو یہ دیکھنا چاہیے تھا کہ مرد حضرات کے اسپرم میں پائے جانے والے کورونا وائرس میں کچھ تبدیلیاں تھیں یا نہیں؟
مختلف ممالک کے ماہرین نے بھی اس بات پر زور دیا کہ اس بات کی تحقیق کی جانی چاہیے کہ مرد کے اسپرم سے جنسی تعلقات کے دوران وائرس منتقل ہوتا ہے یا نہیں؟
خیال رہے کہ مذکورہ تحقیق اپنی نوعیت کی پہلی اور منفرد تحقیق ہے، اس سے قبل دنیا بھر کے متعدد ماہرین نے لوگوں کو کورونا وائرس کے پیش نظر جنسی تعلقات کے حوالے سے اگرچہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایات کی تھیں تاہم ماہرین کہہ چکے ہیں کہ اس بات کے ثبوت نہیں ملے کہ جنسی تعلقات استوار کرنے سے بھی کورونا منتقل ہوسکتا ہے۔
چینی ماہرین کی حالیہ تحقیق سے قبل امریکا کے ماہرین نے خواتین کے سیکس کے خصوصی ہارمونز کو کورونا وائرس کے مریضوں کے علاج کے لیے اہم قرار دیا تھا اور انہوں نے خواتین کے ہارمونز سے مرد مریضوں کا علاج بھی کرنا شروع کردیا تھا۔
امریکی ماہرین کے خواتین میں پائے جانے والے ہارمونز ایسٹروجن (estrogen) اور پروجیسٹرون (progesterone) مرد مریضوں کو صحت یاب ہونے میں مدد دے سکتے ہیں، اس لیے انہوں نے اس حوالے سے آزمائشی پروگرام بھی شروع کردیا تھا۔
امریکی ماہرین نے کورونا کی شدید علامات والے مرد مریضوں کو خواتین کے ہارمونز پیچ (patch) کے ذریعے دینے کا تجربہ شروع کیا تھا، یہ ایک ایسا طریقہ ہے جس میں ٹیپ کی طرز پر بنائے گئے ایک آلے کو جسم پر کچھ وقت کے لیے رکھا جاتا ہے اور انسانی جسم اس ٹیپ میں موجود دوا کو جذب کرلیتا ہے۔