پنجاب بھر میں بلوچ طلبا کیلئے مشترکہ پلیٹ فارم کی ضرورت ہے،بی ایس سی

0
151

بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل پنجاب نے جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا ہے کہ آپ سب کے علم میں ضرور ہوگا کہ بلوچ اسٹوڈنٹس کونسلز پنجاپ کے مختلف اداروں میں گزشتہ کئی سال سے بلوچستان کے طلباءکے لیے پرامن و موثر فلیٹ فارم کی صورت موجود ہیں۔ جو بلوچ طلباءکے آئینی حقوق کے حصول کے لئے ہر ممکن کوشش کرتے آ رہے ہیں۔ یہ علم و عمل کے اصولوں کو مانتے ہوئے شعوری ارتقاءکے راہ پر گامزن ہیں۔ لیکن اس ترقی یافتہ دنیا میں اتنا کافی نہیں، ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ہونہار طالب علم دنیا کے باقی ترقی یافتہ قوموں کی طرح سیاسی اور شعوری طور پر اپنے لوگوں کیلئے میدان میں موجود رہیں اور اپنی ذمہ داریوں پر بخوبی اتریں۔ مگر چونکہ ایک خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اولین ضرورت ایک منظم ساخت کی ہوتی ہے۔ اگرچہ انفرادی طور ہر کونسل اپنے آپ پر آنے ولے تمام ذمہ داریوں کو بھر پور سرانجام دے رہا ہے مگر اس چیز کو مزید مستحکم بنانے کے لئے اجتماع کا ایک خلاءمحسوس ہوا جس کو مدنظر رکھتے ہوئے پنجاب بھر کے تمام بلوچ اسٹوڈنٹس کونسلز نے 10 جون 2023ءکو مشترکہ طور ایک طویل دیوان کے بعد وقت کی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس عمل کو ضروری سمجھا کہ بلوچ طلباءکو اس دور میں پیش آنے والے مشکلات کے حل کیلئے مشترکہ طور پر تمام کونسلز کا ایک اجتماعی پلیٹ فارم تشکیل دیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ اس شعوری پلیٹ فارم کو تشکیل دینے کا مقصد پنجاپ کے اداروں میں بلوچ طالب علموں کی آواز بننا ہے۔ جس طرح آپ سب کے علم میں ہے کہ گزشتہ کئی سال سے بلوچ طالب علموں کو تعلیم سے دور رکھا جارہا ہے ان کو مختلف طریقوں سے جامعات کے احاطے میں ہراساں کیا جارہا ہے۔ اس غیر یقینی صورتحال کی ایک مثال جامعہ پنجاپ یونیورسٹی کے ہاسٹل سے جبری طور پر لاپتہ ہونے والے بیبرگ امداد کی ہے جو کہ بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل کے پرامن احتجاج کے بعد رہا کر دیا گیا تھا۔ گزشتہ کئی دہائیوں کے تجربے سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ بلوچ طلباءملک بھر میں مختلف طرح کی مشکلات سہہ رہے ہیں جیسا کہ قومیت کی بنیاد پر کیمپسز اور ملک بھر میں ریشنل پروفائلنگ، اسی بنا پر کبھی لاپتہ کیا جاتا ہے یا تو ان کیلئے تعلیمی دروازے بند کر دیے جاتے ہیں۔ طلباءذہنی بیماریوں کا شکار ہوتے جارہے ہیں جس کی وجہ سے وہ اس خطے، اپنے قوم اور وطن کیلئے کوئی مثبت قدم اٹھانے سے رہ جاتے ہیں، جو کہ ایک سنگین مسئلہ ہے۔ طلباءکے خاندان اور عزیز و اقارب بھی اس جڑے مسئلے کا شکار ہو رہے ہیں، اور وہ بھی اس کرب کا شکار ہیں۔

انہوں نے کہ جیسا کہ آپ سب کو معلوم ہے بلوچ طلباءہر آنے والے سال اپنی مختص سیٹوں کی حق کیلئے سڑکوں پر احتجاج کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ مگر شومئی قسمت کہ آدھے سے زیادہ سیٹیں پھر بھی انتظامیہ کی نااہلی کی وجہ سے خالی چلی جاتی ہیں، یا سیٹوں کو سفارشات کے ذریعے امیر لوگوں میں پیسوں کے عوض بیچ دیے جاتے ہیں، یا اپنے من پسند لوگوں میں بانٹ دیے جاتے ہیں۔ اس کی مثال ڈائریکٹریٹ آف بلوچستان کی ہے جو کہ ہر سال اپنی من مانی میں کئی سیٹوں کو ضائع کردیتی ہے مگر بلوچ طلباءطالبات کیلئے پارلیمنٹ سے لیکر عام سرکاری افسر تک کوئی آواز بلند کرنے یا انصاف دینے کی جرات نہیں کرتا، اور کئی ہونہار طلباءکا مستقبل داؤ پر لگ جاتا ہے۔ صوبائی و فیڈرل انتظامیہ کا بلوچ طلباءکے ساتھ رویہ انتہائی ناقابل برداشت ہوتا جارہا ہے کہ طلباءجب ان سے اپنے حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں تو ان کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگتی اور طلباءاپنے حقوق کیلئے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہوتے ہیں۔یہ اور ان سے جڑے کئی مسائل کا حل انفرادی طور پر بہت مشکل ہے اور کونسلز اپنی حد تک پچھلے دس بارہ سال سے ان مسائل کے حل کیلئے کوشاں ہیں اور کافی حد تک مسائل کو حل بھی کر دیا ہے مگر اب چونکہ سیاسی و تعلیمی پالیسیوں میں کءتبدیلیاں آچکی ہیں تو ہمیں بھی اپنے اتحاد کو مضبوط کرنا ہوگا تاکہ ہم اجتماعی طور پر یک آواز ہوکر اپنے حقوق کیلئے جہد کریں۔

پریس ریلیز میں مزید کہا گیا کہ بلوچ طلبہ کی حق تلفی و ان پر ڈھائے جانے والے مظالم کسی سے پوشیدہ نہیں بلکہ واضح اور عیاں ہیں اور یہ سلسلہ کئی دہائیوں سے برقرار ہے اگرچہ اپنی اشکال تبدیل کر کے ہر دور میں نئے حربے کی صورت آزمایا گیا ہے مگر اس کی پس منظر ایک ہی رہی ہے بلوچ کو علم و عمل شعور و آگاہی سے دور رکھا جائے۔ یہ سلسلہ بلوچ طلبہ کی جبری گمشدگی سے لیکر ان کے ماورائے عدالت قتل سے ہوتے ہوئے پروفائلنگ و ذہنی ٹارچر تک آئی ہے۔ کبھی مختص نشستوں میں کمی واقع کی جاتی ہے چونکہ اجتماعی مسائل کا باثمر حل ہر وقت اجتماعی جدوجہد سے ہی ممکن رہا ہے۔ ہم دیکھتے آرہے ہیں کہ ہر ادارہ اپنی استطاعت کے مطابق کوشاں ہے مگر یہ تنہا آوازیں اتنی موثر نہیں جو حاکمِ وقت کی بہری سماعتوں کو چھوئیں۔ بلوچ اسٹوڈنٹس کے مسائل کو ہر وقت حقیر و غیر ضروری تصور کیا جاتا ہے جس میں نہ پارلیمانی سیاستدان دلچسپی لیتے ہیں نہ ہی عدلیہ۔ مگر کب تک ہم یوں ہی بکھرے رہیں گے اور انفرادی قوت پر انحصار کرتے رہیں گے جو حکامِ اعلیٰ کے سامنے کوئی خاص حیثیت نہیں رکھتی لہٰذا ہم وقت کی نزاکت کو سمجھیں اور اسی حساب سے اپنے لئے لائحہ عمل تیار کریں۔

بیان میں کہا گیا کہ عہدِ حاضر ہم سے اس اجتماع کی خلاءکو پر کرنے کے طلبگار ہیں جو کہ پنجاب میں موجود بلوچ کونسلز نے اس کمی کو دور کرنے کی راہ میں ایک آغاز بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل پنجاب چیپٹر کی صورت میں لے لیا ہے۔ مزید اپنی آواز کو موثر و مضبوط بنانے کے لئے اس اجتماع کی اہمیت و افادیت کو سمجھ کر اسے تا ابد برقرار رکھنے کی ضرورت ہے جو ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ یقیناً اتفاق و اتحاد ہر دور میں کامیابی کا ضامن ہے تو ہمیں چاہیے کہ اپنے اداروں کے ساتھ مخلصی کا اظہار کریں اور انہیں مستحکم و مضبوط بنانے کی ہر کوشش کریں کیونکہ یہی ادارے ہیں جو ہمیں جوڑے رکھتے ہیں ہمارے آواز کو منظم و بااثر بناتے ہیں۔ آخر میں اپنے تمام ساتھیوں سے التماس کرتے ہیں کہ یہ محض ایک آغاز ہے اس پلیٹ فارم سے ہم تب مستفید ہوسکتے ہیں جب ہم اس کو اسی طرح اخلاص و مستقل مزاجی سے اپنا فرض سمجھ کر برقرار رکھیں اور اس شعوری و علمی جنگ میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here