شہید صبا دشتیاری کی بارہویں برسی پر کوئٹہ میں لیکچر پروگرام کا انعقاد

0
138

نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی شال زون کی جانب سے شہید صبادشتیاری کی بارہویں برسی پر ایک لیکچر پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔

تقریب کی کی صدارت شال زون کے آرگنائزر نزر مری کر رہے تھے۔ مہمان خاص مرکزی آرگنائزنگ کمیٹی ممبران سلمان بلوچ، اشفاق بلوچ اور غنی بلوچ تھے۔

پروفیسر ڈاکٹر منظور بلوچ نے پارٹی ممبران کو صبادشتیاری شہید کی زندگی پر لیکچر دیا ۔

منظور بلوچ نے کہاکہ ہمیں فخر ہے کہ نوجوان اپنے قوم کی ایک استاد کو خراج عقیدت پیش کررہے ہیں۔لیکن یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے جتنے بھی ہیروز ہیں ان کو خراج عقیدت پیش کرنے کا سب سے بہترین طریقہ کیا ہے، کیا ہم صرف ان کو یاد کریں، ان کا دن منائیں، جس مقصد کیلئے انہوں نے اپنی زندگی گزاری ہے، جس مقصد کیلئے انہوں نے اپنی جانیں دی ہیں وہ اہمیت کا حامل ہے؟ یا صرف ان کے بارے میں ہمارے جو سرسری معلومات ہیں ان کو ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کریں، یا اس کو باقاعدہ ایک فکر کے طور منضبط کرکے ہم سب لوگوں کے سامنے لائیں۔

انہوں نے کہاکہ اگر صباءدشتیاری کی بات کی جائے تو وہ ایک نڈر اور بہادر آدمی تھے۔سب کے منہ پہ بولتے تھے۔ وہ اتنے بہادر تھے کہ بہت سے لوگوں نے انہیں کہا کہ تمہیں مار دیا جائے گا۔ تو صباءکہتے تھے کہ میرے مرنے سے بلوچ قوم ختم نہیں ہوگی۔ یہاں پر لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ صباءزندہ ہوتا تو اور زیادہ کام کرتے۔ لیکن بڑے لوگوں کے اپنے مزاج اور اپنے اصول ہوتے ہیں۔ وہ بہادر ہوتے ہیں اور دلیری سے فیصلے لیتے ہیں نہ کہ یہ کوئی جذباتی فیصلہ کرتے ہیں، جس طرح نواب نوروز خان اور نواب اکبر خان بگٹی جو کہ اپنے عمر کے آخری ایام میں تھے نہ کہ وہ جذباتی تھے کیونکہ اس عمر میں کوئی جذباتی نہیں شعوری فیصلہ کرتا ہے۔ صباءنے خوف کو جھٹکا دیا۔ وہ بے خوفی جو دانا بنائے اس کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اتھارٹی کا کام لوگوں میں خوف پیدا کرنا ہے اور صباءکا پیغام ہے کہ خوف کو شکست دو، بے خوفی جو کہ دانائی کے ساتھ ہو۔ خوف تخلیقی قوت چھین لیتی ہے۔ انسان اگر اپنے اصولوں پر نہ جی سکے تو آسائشیں فالتو رہ جاتی ہیں۔

منظور بلوچ نے مزید کہا کہ حیرانگی یہ ہوتی ہے کہ جب یہی معاشرہ بابا مری کو پیدا کرسکتا ہے، شہید نواب بگٹی کو پیدا کرسکتا ہے، سردار عطاءاللہ مینگل کو پیدا کرسکتا ہے، صباءدشتیاری، شہید غلام محمد کو جنم دے سکتا ہے، بہت سارے جن کے نام لوں میں شاید تھک جاؤں، تو پھر سوال یہ ہے کہ یہ معاشرہ لٹریچر میں بانجھ کیوں ہے، وہاں یہ معاشرہ کیوں بڑی شخصیات پیدا نہیں کررہا، پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں پر آپ کو جو مزاحمت کا مرکز ہے اس کی روایت زیادہ مستحکم ہے، لٹریچر سے زیادہ ہے۔ مزاحمت آج بھی موجود ہے، ویسے دیکھا جائے تو سب سے پہلے لٹریچر آتا ہے، سب سے پہلے دانشور آتا ہے، لیکن یہاں پر آپ کے جہد کار پہلے آتے ہیں، عوام بھی آگے ہیں، المیہ یہ ہے کہ سوکالڈ دانشور سب سے پیچھے ہے۔

انہوں نے کہا کہ سب سے بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صباءکو صباءکس چیز نے بنایا، اگر صباءیہ قربانی نہیں دیتے تو کیا صباءہوتے؟ کیا ان کی ادبی شخصیت پورے بلوچستان یا پوری دنیا میں جہاں تک ان کا نام ہے سب کو متاثر کرتی؟ اگر صباءکی زندگی سے اس مزاحمتی اور سیاسی پیریڈ کو نکالیں تو صباءمیں اور کیا بچے گا۔ ہمیں یہ دیکھنا ہے اور سمجھنا ہے کہ صباءکی شخصیت میں وہ کونسے عناصر تھے جہنوں نے ان کو بے خوف شخصیت بنایا، جنہوں نے مراعات کی طرف ایک آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا، صباءوہ آدمی تھے انہوں نے اسی یونیورسٹی میں انتظامیہ کے اندر کسی بھی آدمی سے ٹکے کا بھی تعلق نہیں رکھا، اگر کسی سے تعلق تھا تو وہ لٹریچر کی بنیاد پر تھا، ان کے اکثر دوست طلبائ، چوکیدار، مالی وغیرہ تھے، یا شاید ہم خیال لوگوں سے دوستی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ صباءکا جرات مندانہ اظہار کمزور کیلئے نہیں تھا وہ طاقت ور کیلئے تھا، صباءکی زندگی سے آپ بہت کچھ سیکھتے ہیں، ہم کو چاہیے کہ ہم ان سے سیکھیں، ان کو جاننے، پہچاننے، ان کی زندگی کو ریکارڈ پر لائیں تاکہ آنے والی نسل بھی صباءکو جاننے اور علم سے ناطہ جوڑے، کیونکہ جب تک آپ علم سے ناطہ نہیں جوڑیں گے آپ بے خوف نہیں ہونگے، بے خوف لوگوں پر اتھارٹی قائم کرنا آسان نہیں ہے۔ صباءکی زندگی کا جو خوب صورت پہلو مجھے نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے خوف کو شکست دی اور ایک دانا کے طور پر اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here