دستیاب معلومات کے مطابق 17فروری 2023کی رات پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسیز کے اہلکاروں نے سیٹلائیٹ ٹاؤن کوئٹہ میں ایک گھر پر دھاوا بول دیا جس میں گومازی، تمپ سے تعلق رکھنے والے معروف ٹیچر، محب وطن اور روشن خیال شخصیت مرحوم واجہ محمد حسین بلوچ کی بیوہ محترمہ مہناز بلوچ اپنے خاندان کے ساتھ رہائش پذیر تھی۔انٹیلی جنس اہلکاروں نے گھر میں موجود محترمہ مہناز بلوچ کو اس کی چھوٹی بیٹی، اس کی بہو ماہل بلوچ، اس کی معصوم پوتیوں نگرہ و نازینک اور اس کی نواسی بانڑی بلوچ سمیت جبری اٹھا کر کسی نامعلوم عقوبت خانہ میں منتقل کیا تھا۔محترمہ مہناز نے اپنے گھر میں پیش آنے والے واقعہ کی تفصیل اگلے دن بیان کرتے ہوئے بتائی کہ انٹیلی جنس اہلکاروں نے گھر کی تلاشی لیتے وقت ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا، ان پر تشدد کی، گھر میں توڑ پھوڑکی۔ تلاشی لینے کے بعد ان سب کو کسی عدالتی حکم نامہ کے بغیر زبردستی گاڑیوں میں اٹھا کر ایک نامعلوم عقوبت خانہ میں لے گئے جہاں اسے اس کی بیٹی، پوتیوں اور نواسی کے ساتھ ایک کمرے میں الگ بند کیا گیا جبکہ ماہل بلوچ کو ان سب سے الگ ساتھ والے کمرہ میں لے گئے اور ساری رات اس کی چیخ و پکار کی آوازیں آتی رہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ ماہل بلوچ پر تشدد کیا جاتا رہا۔ صبح ہونے پر محترمہ مہناز بلوچ کو اس کی بیٹی، پوتیوں نازینک و نگرہ اور نواسی بانڑی کے ساتھ چھوڑتے ہوئے انھیں کسی کو کچھ نہ بتانے اور خاموش رہنے کی دھمکی دی گئی۔
ماہل بلوچ کو اغوا کرنے والی انٹیلی جنس نے جب دیکھا کہ چپ رہنے کی دھمکیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ماہل بلوچ کے خاندان نے ان کا بھانڈا پھوڑدیا ہے تواپنا جرم چھپانے کیلئے انٹیلی جنس نے سی ٹی ڈی پولیس کو ڈھال بنا کر اس سے ماہل بلوچ کی گرفتاری کا دعویٰ کروایا۔ ماہل بلوچ کی خاندان کے برعکس بدنام زمانہ فورس سی ٹی ڈی پولیس نے ماہل بلوچ کو سیٹلائیٹ ٹاؤن کوئٹہ میں کسی پارک کے قریب سے گرفتار کرنے، اس کے قبضہ سے ایک خودکش جیکٹ برامد کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے ماہل بلوچ کو آزادی خواہ مسلح تنظیم بلوچستان لبریشن فرنٹ کا ایک فدائی / خودکش سرمچار ظاہر کیا۔گو کہ بی ایل ایف پاکستانی جبری قبضہ اور اس کی نوآبادیاتی حکمرانی سے بلوچستان کی آزادی کیلئے برسرِپیکارمسلح بلوچ تنظیموں میں سے میدان جنگ میں ایک فعال اور بڑی تنظیم ہے تاہم راقم کی معلومات کے مطابق بلوچستان لبریشن فرنٹ نے پاکستانی فوج یا کسی دوسرے فوجی یا غیرفوجی ہدف پر کسی بھی فدائی / خودکش حملے کی ذمہداری تا دم تحریر ہذا قبول نہیں کی ہے دوسری جانب سی ٹی ڈی پولیس مقبوضہ بلوچستان میں فوج، ایف سی اور انٹیلی جنس اداروں کے ہاتھوں جعلی مقابلوں میں ماورائے عدالت قتل کی کاروائیوں کی ذمہداری قبول کرنے کیلئے کافی بدنام ہے۔یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ فوج اور انٹیلی جنس کے ہاتھوں جبری لاپتہ کیئے جانے والے بلوچ فرزندوں کی جبری گمشدگی کے کئی ہفتوں یا مہینوں اور بعض اوقات تو سالوں بعدسی ٹی ڈی ان کے خلاف جھوٹا مقدمہ درج کرکے انھیں گرفتار ظاہر کرتا رہا ہے۔
تادم تحریر ہذاانٹیلی جنس اداروں نے سی ٹی ڈی کے ذریعے ماہل بلوچ کو چار مرتبہ کورٹ میں پیش کرکے اس کا جسمانی ریمانڈ لیتے رہے جس سے ماہل بلوچ کے خاندان، بہی خواہوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو یقین ہونے لگا کہ بار بار ماہل بلوچ کا جسمانی ریمانڈ لے کر انٹیلی جنس اور سی ٹی ڈی جسمانی اور ذہنی ازیت رسانی کے ذریعے ماہل بلوچ پر دباؤ ڈال کر اسے کسی ناکردہ جرم کا اعتراف کرنے پرمجبور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ماہل بلوچ کی اغوا نما گرفتاری کے خلاف کوئٹہ کے ریڈ زون میں احتجاجی دھرنے کو پولیس گردی، دھونس، دھمکیوں اور کھٹ پتلی حکومتی وزراء و انتظامیہ کی جھوٹے وعدوں کے ذریعے جس طرح ختم کرایا گیا تھا اس سے بھی ہر باشعور انسان پر یہ حقیقت آشکار ہوگیا تھا کہ پولیس، کھٹ پتلی وزراء، ارکان پارلیمان، سویلین انتظامیہ اور عدلیہ وغیرہ سب کے سب دراصل پاکستانی فوج اور انٹیلی جنس کے آلے ہیں جنھیں وہ موقع و محل کے مطابق اپنے غیر قانونی کاروائیوں، اقدامات اور انسانی حقوق کی پامالیوں کو قانونی لبادہ پہنانے کیلئے استعمال کرتے رہتے ہیں۔
انہی خدشات کے پیش نظر 21مارچ 2023 کو وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی عہدیداروں کے ہمراہ ماہل بلوچ کے اہلخانہ نے کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرکے بتائے کہ انٹیلی جنس اہلکار ان کے گھر آگر انھیں ماہل بلوچ کیلئے احتجان نہ کرنے بصورت دیگر پورے خاندان کو اٹھانے کی دھمکی دے رہے ہیں۔اسی روز راقم نے بھی سماجی رابطہ کی ویب سائیٹ ٹوئیٹر پر اپنے ایک ٹوئیٹ میں خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”تفتیش کے بہانے ماہل بلوچ کی پولیس حراست کو طول دینے کا مقصداسے اس جرم کا اعتراف کرنے پر مجبور کرنا ہے جو اس نے کبھی کیا ہی نہیں۔ اس کا گناہ یہ ہے کہ وہ ایک بلوچ ہے، محب وطن خاندان سے تعلق رکھتی ہے اور جبری گمشدگیوں کے خلاف آواز اٹھاتی رہی ہے۔ حیف ان بلوچوں پر جو حکومت کا حصہ ہیں“
ماہل بلوچ کے اہل خانہ کی پریس کانفرنس کے دوسرے دن 22 مارچ 2023 کو پاکستانی فوج اور انٹیلی جنس کی سائبر بریگیڈ کے ایجنٹس نے سوشل میڈیا ویب سائٹس پر اپنے جعلی اکاؤنٹس سے ماہل بلوچ کا ایک ویڈیو بیان پوسٹ کرنا شروع کیا جس میں ماہل بلوچ کو اعتراف جرم کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ویڈیو کے بعد کھٹ پتلی وزیر اعلیٰ قدوس بزنجو کا دروغگو ترجمان بابر یوسفزئی اور سی ٹی ڈی کے ڈی آئی جی اعتزاز گورایا نے پریس کانفرنس کرکے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ ماہل بلوچ سے جبراً لئے گئے اس فرضی اعتراف جرم کو بنیاد بنا کر ماہل بلوچ، اس کے خاندانِ انسانی حقوق کے کارکنوں اور بلوچ تحریک آزادی کے خلاف میڈیا پر کردار کشی کی مہم شروع کردیا۔ اس سے زیادہ بھونڈاپن اور کیا ہوگا کہ ماہل جیسی معصوم عورت کو 35 دن تک عقوبت خانوں میں ذہنی اور جسمانی ازیت دینے کے بعد اس کی فرضی اعتراف جرم کا جو ویڈیو بیان سوشل میڈیا میں جاری کی گئی ہے وہ ویڈیو کسی مجاز عدالت کے روبرو ریکارڈ کرنے کے بجائے انٹیلی جنس کے عقوبت خانوں میں فلمایا کیا گیا ہے جس کی اسکرپٹ میں قیدی خواتین کے ساتھ سی ٹی ڈی کی حسن سلوک اور اچھے برتاؤ کی تعریف و توصیف پر کچھ زیادہ ہی زور دیا گیا ہے اسی کو کہتے ہیں “چور کی داڑھی میں تنکا “۔ایک زیر حراست بے بس خاتون سے جبراً اپنی صفت و ثناء کرواناایک انتہائی مشکوک، غیرقانونی، غیر اخلاقی اور کم ظرفانہ حرکت ہے۔ اس فرضی اعتراف جرم کے جھوٹے ویڈیو کو دیکھ کر تو ایسا لگتا ہے کہ ماہل بلوچ سی ٹی ڈی کے حسن سلوک سے اتنا خوش اور متاثر ہے کہ وہ اپنے گھر اور بچیوں نازینک و نگرہ کے پاس آنے کے بجائے اسی عقوبت خانہ میں رہناچاہتی ہے۔ماہل سے زبردستی لئے گئے اس بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس جھوٹے بیان کا خیال پیش کرنے اور اس کااسکرپٹ لکھنے والے افسران ذہنی و اخلاقی طور پرکتنا دیوالیہ اور کم ظرف لوگ ہیں قانون کا تھوڑا سا سوجھ بوجھ رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ پولیس کی حراست میں لی گئی اعتراف جرم کا پاکستان کے اپنے ہی قانون میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔ سی ٹی ڈی اہلکاروں کا یہ غیرقانونی اور غیراخلاقی حرکت اپنے آپ میں ایک بڑا جرم ہے اگر کسی مہذب ملک میں کوئی تفتیشی افسر یا ادارہ ایسا کرتا تو اسے ایسے غیرقانونی، غیراخلاقی اور غیرانسانی حرکت کیلئے سنگین قانونی نتائج بھگتنا پڑتے مگر مقبوضہ بلوچستان میں لاقانونیت ہی قانون ہے وہاں لاقانونیت کی یہ حالت ہے کہ بابر یوسفزئی اور ڈی آئی جی سی ٹی ڈی اعتزاز گورایااسی بے بنیاد اورغیرقانونی ویڈیوبیان کو بنیاد بناکراپنے پریس کانفرنس میں نہ صرف ماہل بلوچ پر سنگین نوعیت کے الزامات لگائے بلکہ اسی خاندان کے کئی دیگر خواتین اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما عبدالقدیر بلوچ اور ہیومن رائٹس کونسل بلوچستان کے چیئرپرسن محترمہ بی بی گل بلوچ کا بھی نام لے کران پر الزامات لگائے۔جبری گمشدگیوں کے خلاف سراپا احتجاج بلوچ خواتین پرمسلح آزادی خواہ تنظیموں کے ہاتھوں استعمال ہونے کا بے بنیاد الزام لگا کر ان کے خلاف کاروائی کرنے کی دھمکی دی ۔ بابر یوسفزئی اور اعتزاز گورایا نے ماہل بلوچ سے زیر حراست زبردستی لئے گئے اس غیرقانونی ویڈیو بیان کی بنیاد پر ماہل بلوچ، انسانی حقوق کے کارکنوں، تنظیموں اور بلوچ قومی تحریک آزادی کے خلاف جھوٹے الزامات کی بوچھاڑ کرکے ان کی میڈیا ٹڑائل شروع کردی۔کہاوت مشہور ہے کہ ” جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے” ماہل بلوچ کے اس فرضی اعترافی ویڈیو بیان اور بابر یوسفزئی و گورایا کے پریس کانفرنس میں مقدمہ کا اسکرپٹ ہی تبدیل کیا گیا ہے۔مقدمہ کے ابتداء میں ماہل بلوچ کو بی ایل ایف کا خودکش بناکر پیش کیاگیا اور اس سے ایک خود کش جیکٹ برامد کرنے کا دعویٰ کیاگیا جبکہ ویڈیو اور بابر و گورایا کے پریس کانفرنس میں ماہل پر سہولت کاری کے الزامات لگائے گئے۔
عقوبت خانہ میں جبراً فلمائے گئے محترمہ ماہل بلوچ کے ویڈیو بیان اور اس بیان کی بنیاد پر کھٹ پتلی حکومت کے ترجمان بابر یوسفزئی اور سی ٹی ڈی پولیس کے ڈی آئی جی اعتزاز گورایا کی پریس کانفرنس میں ماما عبدالقدیر بلوچ اور جبری گمشدگیوں سے متاثرہ خاندانوں کے خواتین رشتہ داروں پر آزادی خواہ بلوچ مسلح تنظیموں کے ہاتھوں کھیلنے اور بیرون ملک سے فنڈنگ لینے کے الزامات سے قابض پاکستانی ریاست کے اصل عزائم کھل کر ظاہر ہوگئے ہیں لگتا ہے کہ مقبوضہ بلوچستان میں پاکستانی فوج، فرنٹیئر کور اور انٹیلی جنس ایجنسیز کے ہاتھوں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں، خصوصاً جبری گمشدگیوں کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز اورہیومن رائٹس کونسل بلوچستان جیسے انسانی حقوق کی تحفظ کے پلیٹ فارمز، بالخصوص جبری لاپتہ بلوچ فرزندوں کے خواتین رشتہ داروں کی انتھک اوردلیرانہ جدوجہد سے قابض پاکستانی ریاست شدید پریشان و بوکھلاہٹ کا شکارہے اورقابض پاکستان کی فوجی اسٹابلشمنٹ کسی نہ کسی طرح ان آوازوں کو خاموش کرانے کا متمنی ہے۔ماہل بلوچ کی جبری گمشدگی، اس کے خلاف جھوٹا مقدمہ قائم کرنے، اسے پابند سلاسل رکھنے اور ریاستی عقوبت خانہ میں جبراً اس کا ویڈیو بیان فلما کر سوشل میڈیا پر ڈالنے کاغیر انسانی ڈرامہ، کھٹ پتلی حکومتی ترجمان اور ڈی آئی جی سی ٹی ڈی کے ذریعے میڈیا میں ماہل بلوچ اور انسانی حقوق کے دیگر کارکنوں اور خواتین پر جھوٹے الزامات لگانے اور ان کے خلاف دھمکی آمیز لہجہ استعمال کرنے کا مقصد دراصل انسانی حقوق کے کارکنوں اور جبری لاپتہ کئے گئے بلوچوں کے خواتین رشتہ داروں کو خوفزدہ کرکے ریاستی ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھانے سے انھیں باز رکھنا ہے۔
یہ حقیقت اب کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ پاکستان میں پارلیمان انجینیئرڈ انتخابات کے نتیجہ میں وجود میں آتا ہے انتخابات سے بہت پہلے فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیز فیصلہ کرتے ہیں کہ ربڑ اسٹمپ پارلیمان میں کس جماعت کو کتنی نشستیں ملنی ہیں، کہاں کس جماعت یا اتحاد نے حکومت بنانی ہے، کون وزیر اعظم و وزراء، وزرائے اعلیٰ اور گورنر بنیں گے۔آئی ایس آئی طے کرتا ہے کہ کس مقدمہ میں کونسی عدالت نے کیا فیصلہ کرنا ہے، میڈیا ہاؤسز اور اینکرز نے کیا پروگرام کرنا ہے، پیمرا نے کس کو سزا دینا اور کس کو چھوٹ دینا ہے اور اگر کوئی سرپھرا صحافی بات نہ مانے تو کیسے اسے ویگو والوں کے ذریعے اٹھا کرلاپتہ کرناہے، لڑکی کی بھائیوں سے پٹوانا، یا پھر شمالی علاقہ جات کی سیر کیلئے بھجوانا اور پھربندوق کی نوک پراسے وہاں سے اپنے خاندان، دوستوں اور بہی خواہوں کو اپنی خیریت کے پیغامات بھجوانے ہیں۔ اسی طرح اگر کوئی جج اڑ جائے توبغیر کپڑوں کے اس کی ویڈیو بنا کر کیسے اسے بلیک میل کرنا ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ پاکستان کے سب ریاستی ستون اور ان کے کام کرنے کا نظام مکمل طور پر فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیز کے اختیار میں ہے یہ تو پاکستان میں ریاست کی اپنی عمومی حالت ہے جبکہ بلوچستان تواسی ریاستِ بے دستور کا مقبوضہ خطہ اور کالونی ہے اس کے امور توفوج اور انٹیلی جنس براہ راست خود اپنے نگرانی میں اپنے دلالوں اور ڈیتھ اسکواڈز کے ذریعے چلاتے ہیں۔نام نہاد سیاسی جماعتیں، عدلیہ، کھٹ پتلی حکومتیں، ربڑ اسٹمپ پارلیمنٹ اور مقیدمیڈیا مقبوضہ بلوچستان کے معاملات میں فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیز کے لامحدود اختیار پر متفق ہیں پاکستانی سیاسی جماعتیں مقبوضہ بلوچستان کی سنگین صورتحال کو محض فوج کے ساتھ اقتدار میں اپنا حصہ بڑھانے کیلئے سودا بازی کیلئے استعمال کرتے ہیں۔
ہوسکتا ہے کہ قابض پاکستانی ریاست وی بی ایم پی اور ایچ آر سی بی جیسے انسانی حقوق کی تنظیموں کے عہدیداروں و کارکنوں کو، جبری لاپتہ کئے گئے بلوچ فرزندوں کے خواتین رشتہ داروں اور ان کے حق میں آواز اٹھانے والے صحافیوں، عوام اور سیاسی کارکنوں کوڈراکر خاموش کرنے کیلئے کھٹ پتلی حکومت، عدلیہ اورپولیس کو استعمال کرکے اس جھوٹے مقدمہ میں ماہل بلوچ کو مجرم ٹھہرا ئے اور اسے سزا دے کر اپنے تئیں نشان عبرت یا مثال بنانے کی کوشش کرے مگر ضروری نہیں ہے بلوچ قوم کا ردعمل ان کے گندے منصوبوں اور توقعات کے مطابق ہی ہو۔ تاریخ گواہ ہے کہ آزادی، انصاف اور سچائی کیلئے جدوجہد کرنے والوں کے خلاف ظالم کی تمام تر طاقت اور تدبیریں آخرکار ناکام ہوکر خاک میں مل جاتی ہیں۔جیت ہمیشہ حق اورسچائی کی ہوتی ہے۔جب تک ظلم و جبراور ناانصافی ہوتا رہے گا تب تک جدوجہد کا دیا بھی جلتا رہے گا۔ ظلم،جبر اور بے انصافیوں کے خلاف آزادی اور انسانیت کی سربلندی کیلئے کفن با دوش عشاق کے قافلے اُٹھتے اور چلتے رہیں گے ریاست فاشسٹ ہتھکنڈوں سے ان کا راستہ روک نہیں سکے گا۔
٭٭٭