جنیوا میں اسٹاپ ٹی بی پارٹنرشپ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر لوچیکا ڈیتیو کے مطابق، کرونا وائرس کی وبا کے نتیجے میں اس بیماری کے خلاف پیشرفت میں نمایاں طور پر کمی آئی ہے۔
ڈیتیو نے وائس آف امریکا کو بتایا کہ ’’ہم نے کرونا کی عالمی وبا کی وجہ سے کئی سالوں کی محنت اکارت کر دی – ٹی بی کے لیے آلات ، اسپتالوں اور ڈسپنسریوں اورکام کرنے والے عملے میں سے بہت سوں کو کووڈ سے نمٹنے کے لیے مکمل طور پرمنتقل کر دیا گیا تھا۔ اس طرح تپ دق کو ختم کرنے کے لیے مختص وسائیل کو کوویڈ کے انسداد اورعلاج کے کے لیے وقف کر دیا گیا‘‘۔
ٹی بی دنیا کی مہلک ترین بیماریوں میں سے ایک ہے۔ کئی دہائیوں کی پیش رفت کے بعد، ٹی بی کے کیسز ایک بار پھر بڑھ رہے ہیں۔ 24 مارچ کو ٹی بی کا عالمی دن منایا جا تا ہے اس سال کی تھیم ہے ’’ہاں! ہم ٹی بی کو ختم کر سکتے ہیں‘‘۔اوراس موقع پریہ امید کی جا رہی ہے کہ اگلے چند سالوں میں اس بیماری کو ختم کرنے کے لیے نئی ویکسین تیار ہو جائے گی۔
ٹی بی نے گزشتہ سال 16 لاکھ کے قریب افراد کی جان لی تھی۔
عالمی ادارہ صحت نے بنیادی طور پرتشخیص،علاج اور ویکسین کی تیاری کے ذریعے 2030 تک ٹی بی کے خاتمے کا عالمی ہدف مقرر کیا ہے۔
ڈیتیو نے وی او اے کو بتایا کہ جب آپ اس حقیقت کو سامنے رکھتے ہیں کہ ہمارا سیاسی عزم پہلے سے زیادہ ہے۔ ہمارے پاس بہت سارے نئے ٹولز ہیں جو پہلے نہیں تھے تو پھر اس بات کا امکان بڑھ جاتا ہے کہ اگلے دو، تین برس میں ویکسین آسکتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری سول سوسائٹی خاصی متحرک ہےاورکمیونٹی پلیٹ فارم اورنیٹ ورکس فعال ہیں۔ یہ سارے عوامل ہمیں بہت زیادہ امید دلا رہے ہیں کہ ہم ٹی بی کو ختم کر سکتے ہیں۔ تاہم، اس کے لیے مزید رقم درکار ہوگی۔
اگلے آٹھ سالوں میں ایک اندازے کے مطابق 230 ارب ڈالر درکار ہوں گے اور اس فنڈنگ پر اتفاق ہونا ابھی باقی ہے۔
تپ دق غریب ممالک میں زیادہ عام اور زیادہ ہلاکت خیزہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ تجارتی مواقع کی کمی نے ٹی بی کی نئی ادویات کی تحقیق اور ترقی میں رکاوٹ ڈالی ہے لیکن نئی ویکسین کی تیاری سے لاکھوں جانیں بچ جائیں گی۔