بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ میں بلوچ جبری لاپتہ افراد اور شہداءکے لواحقین کااحتجاجی کیمپ 4988 دنوں سے جاری ہے ۔
اظہار یکجہتی کرنے والوں میں بی ایس او کے رہنما سمیت دیگر مرد اور خواتین نے کیمپ آکر اظہارِ یکجہتی کی۔
اس موقع پر وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ معصوم مزدور طلباء، ٹیچر شاعروں اور خواتین کو جبری اغوا کرنے والی سی ٹی ڈی، فوج، ایف سی آج پوری آب و تاب کے ساتھ بلوچ قوم کے فرزندوں کو اس لیے نشانہ بنایا جارہا ہے کہ بلوچ قوم کے دلوں میں خوف پیدا کیا جا سکے مگر آج قومی پرامن جدوجہد خوف سے کوسوں دور اپنی منزل کو چھونے والی ہے تو اس طرح کے ریاستی ہتھکنڈے بے سود ہیں ہاں البتہ ان کے مقامی افسر ضرور اس طرح کے جھوٹے بیانات سے اپنی پوزیشن مستحکم آسایشوں ترقی میں اضافہ کر رہے ہیں۔
یعنی اب معصوم قوم کے فرزندوں کی لہو سے پاکستان فوج اس کے دلالوں کے بچے مزید آسائش حاصل کر رہے ہیں کہ اس طرح جھوٹے بیانات صرف اپنی شکست زدہ فوج کے حوصلوں کو بڑھانے اور اپنی ترقی کے لیے راہ ہموار کرنے کے علاوہ کوئی معنی رکھتے بولان میں آپریشن میں جہاں بچوں مزدوروں کو جبری اغوا کیا گیا، فوج سے بمباری قتل و غارت دیگر مکاتب فکر کو گرفتار جبری اغوا کرنے کے بعد انہیں سرمچار قرار دے کر کھلے عام شہید کرنے کے علاوہ کوئی اور توقع رکھی بھی نہیں جا سکتی۔
ماماقدہربلوچ نے کہا کہ پاکستانی خفیہ اداروں نے کہا کہ جبری اغوا کرنے والے معصوم بچے دہشتگرد قرار دیا۔ صوبائی حکومت نے بھی نے بھی اس گنگا میں خوب ہاتھ دھوہے ۔ڈیرہ بولان کے کئی علاقے تاحال ریاستی بربریت کے تسلسل میں اور بلوچ اپنی زمین پر بے ننگ ہے ۔فروری میں ڈیرہ بگٹی کوہلو بولان میں متعدد بلوچوں کو شہید درجنوں کو جبری اغوا کئی گھروں کو جلانے کے ساتھ کے ساتھ کہی چوٹے دیہات صفحہ ہستی مٹا دیئے گئے، تمام آپریشن فرزندوں کی شہادت براہ راست صوبائی حکومت خفیہ اداروں اور فوج کے ساہے میں جاری رہیں پورا مکران بھی ان کی شر سے نہ بچ سکا، مکران کے کہی علاقوں بلکہ یہ کہنا مغالط نہ ہوگا کہ پورا مکران ریاستی ظلم جبر سے گونج رہا ہے اس فیصلہ کن دور میں ریاستی فوج کا اہم ٹارگٹ ہے۔