گوریلا سرمچار شہید مُلا بہرام بلوچ | نوید اولیا

0
371

سال 2004 سے 2008 تک ہمارے علاقے میں انقلاب برپا ہوا، قابض پاکستانی آرمی کے فوجی دستوں اور کیمپوں پر کئی بار متعدد حملے کئے گئے، اس وقت یہ خبریں نیوز ہیڈ لائنز یا کہ توار اخبار کے ذریعے شائع ہوا کرتے تھے اور ان حملوں کی زمہ داری بی ایل ایف کے ترجمان دودا بلوچ نے قبول کئے۔

بلوچ سرمچاروں کی ہولناک حملوں پر عوامی حلقوں میں حیرانگی کا سماں تھا اور لوگ حیران تھے کہ آخر کون ہیں یہ لوگ اور کہاں سے آئے ہیں، مگر حملوں میں روز بہ روز اضافہ ہو رہا تھا، دشمن کے اہلکار کافی پریشان اور ذہنی کوفت میں مبتلا تھے۔شہید خالد اور شہید دلجان نے ہر محاذ پر دشمن کی کمر توڑ دی تھی، علاقے میں ہر دیوان اور مجالس میں جنگی داستان بْیان ہوا کرتے تھے ۔یہ داستان سن کر ہم ان سے بہت متاثر ہوئے لیکن آخرکار دشمن کے مخبروں نے اپنا منہ کالا کرکے انکے کام آسان کر دیئے۔8 اگست 2008 میں سوراب کی سرزمین پر دو نڈر اور جانباز فرزندوں شہید دلجان اور شہید ڈاکٹر خالد بلوچ نے مردانگی کے ساتھ دشمن فوج سے آمنے سامنے لڑ کر جام شہادت نوش کرکے آخری سانس تک لڑ کر سرخم تسلیم نہیں کی اور اسلحہ پھینک کر سرنڈر ہونے کے بجائے شہادت کو ترجیح دیکر مادر وطن بلوچستان کیلئے خود کو قربان کرکے تاریخ رقم کی۔

گوریلا سرمچار شہید خالد اور شہید دل جان کی شہادت کے بعد کچھ مدت تک ہمارے علاقوں میں دشمن پر حملے رک گئے۔ ایک خاموشی چھائی گئی، کیونکہ ان جانباز سرمچاروں نے دشمن فوج کا جینا حرام کیا تھا اور انہیں یہ پتہ تک نہ تھا کہ کون ان پر لگاتار حملہ کر رہا ہے۔ تاوقتیکہ ان کی شہادت تک۔ جب تک وہ زندہ تھے کسی کو یہ معلوم نہ تھا کہ حملہ آور کون ہیں اور کہاں سے آئے ہیں۔ ان جانباز گوریلا سرمچاروں کی شہادت کے بعد خاموشی تھی، لوگ سوگ منا رہے تھے، لوگ کافی پریشان تھے اور ان کے ذہنوں میں الجھن سی کیفیت پیدا ہوئی تھی۔ لوگ پریشان تھے کہ شاید انکی شہادت سے یہ جنگ اب ختم ہو کر اپنے منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکے گا، کیونکہ علم و شعور سے آراستہ ان دو گوریلا سرمچاروں کی شہادت نے خاص کر مَکُّران ریجن کو بہت متاثر کیا تھا۔لیکن جب گوریلا جنگ سر اٹھاتی ہے تو منزل مقصود تک پہنچنے کے بغیر ختم نہیں ہوتی، کیونکہ شہیدوں کے فکر و فلسفے پر کارفرما ہو کر شہیدوں کی فکری اور نظریاتی ساتھی ان کے مقصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے اس جنگ کو ختم ہونے کے بجائے ان میں مزید شدت لاکر شہیدوں کی فکر و فلسفہ کو آگے لے جاتے ہیں، یونہی شہیدوں کے پیروکاروں میں ایک شہید ملا بہرام تھا جنہوں نے 2008 کو شہید خالد اور دل جان کے فکر و فلسفے پر گامزن ہو کر مسلح تنظیم میں شمولیت اختیار کرکے اس بھاری بوجھ کو اپنے کندھوں پر اٹھاکر جاری اس گوریلا جنگ کو ختم ہونے نہیں دیا اور بندوق کی آخری گولی اور آخری سانس تک دشمن فوج سے لڑتا رہا۔

گوریلا جنگی اصولوں سے آشنا شہید ملا بہرام نے شہید خالد اور شہید دلجان کی طرح دشمن فوج کا جینا حرام کیا تھا، دشمن کافی پریشان تھی، اور اس گوریلا جنگی اصولوں سے متاثر ہوکر ہر گھر سے نوجْوان اس جنگ کا حصہ بنے، ہر گھر سے ایک سرمچار پیدا ہوئے، شہید ملا بہرام کی کامیاب حکمت عملیوں نے اس جنگ کو اور زیادہ مضبوط اور توانا بخش بنا دیا۔ ملا بہرام کی پیدائش بھی مادر وطن کی ان پہاڑوں کے اندر ہوئی ہے، انہوں نے ان پہاڑوں اور وادیوں کے اندر پرورش پاکر جنگی ہنر اور گوریلا حکمت عملیوں سے آشنائی حاصل کی تھی۔ مزن بند کی پہاڑوں میں آنکھ کھولنے کے بعد یہ بلند پہاڑیں اور دشوار گزار راستے انکے کھیل اور کھود کی جگہ بن گئے تھے، بانسر، نگارو، نگوز، گورگی، مرزاکلّک، جلائی کلّگ، گرمیزوک، بیپات، چرپان، پنسن، کاشاپ، کترینز کنڈگ، کلّکور، کوروچی، تلیدار اور موکندر ان سب نے ملا سے آشنا تھے اور ملا بہرام کو بھی ان پہاڑوں اور وادیوں سے بے پناہ محبت تھی، آخری دم تک وہ ان کے پاسبان تھے۔

ملا بہرام خود ایک مکمل بلوچ ہونے کے ساتھ ساتھ قوم کے ہر دکھ و درد میں انکے ساتھ تھے، انہوں نے قوم کو سنا اور انہیں برداشت کی، وہ ایک صابر اور حوصلہ مند انسان تھے، وہ کبھی مہم جوئی کا حصہ نہیں تھے، جنگی میدان سے لیکر عام سْیاسی مجالس تک صبر وتحمل سے دوسروں کے باتھ سنتے رہے اور ان سے مناسب انداز میں گفتگو کرکے ان سے بحث و مباحثہ کیا کرتے تھے،۔2009 کو شہید واجہ غلام محمد کی شہادت کے چند دن بعد میں نے ملا بہرام کو دیکھ لیا، لیکن وہ اندر سے ٹوٹا ہوا کافی پریشان تھے، دوران گفتگو انہوں نے کہا کہ شہید غلام محمد کی شہادت سے کافی افسوس ہے مجھے کہ ایسے عظیم رہنماؤں کی زندگی میں کوئی اہمیت اور قدر نہیں، وہ بار بار شہید غلام محمد کے تقاریر کو سنتا رہا اور انکی شہادت پر افسوس کا اظہار کرتا رہا، مجھے معلوم نہیں تھا کہ ملا بھرام خود اس کارروان کا سپاہی ہے۔ملا بہرام پندرہ سالوں کی طویل جدوجہد کے اندر مشکلات، پریشانیاں، گھر اور رشتہ داروں سے دوری، سمیت زندگی کی تمام خواہشات کو ختم کرکے انہوں نے یہ فیصلہ ٹھان لیا تھا کہ مجھے ہر حال میں شہیدوں کے کارروان میں رہ کر بلوچستان کو دشمن کی چنگل سے آزاد کرانا ہے، انکی خواہش صرف اپنی شہادت اور بلوچستان کی آزادی پر مرکوز تھا۔

ان طویل عرصے میں شہید نے مختلف محاز پر دشمن فوج پر کھاری ضرب لگا کر ان کو شکست پاش کی ہے، مَنْد، تُمْپ، تُربَت، بُلیدہ، زامران، پَنجْگُور، آواران، سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں میں مختلف مورچوں میں پوزیشن لیکر دشمن فوج کو شکست دی ہے، ان جنگی محاز میں متعدد بار وہ دشمن فوج کے گھیراؤ میں بھی آ چکا ہے لیکن گوریلا جنگی اصولوں سے واقف بہترین حکمت عملی اپنا کر شاطرانہ انداز میں دشمن کے گھیراؤ سے نکلنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔

ملا اپنے ساتھیوں کے ساتھ انتہائی مشفقانہ انداز میں پیش آتا تھا، دوستوں کے اندر آپسی رنجش اور اختلافات کے دوران وہ کافی بے چین ہو کر انکے درمیان صلح رحمی ، باہمی اتفاق اور بھائی چارگی پیدا کرتا تھا، دوران مسلح محاز وہ اپنی زندگی کے بیشتر اوقات اپنے تنظیمی اور گوریلا ساتھیوں کے ساتھ گزارتا تھا، انکا توجہ اپنی زاتی زندگی اور خونی رشتہ داروں اور بچوں سے ہٹ کر تھا، وہ ہر وقت بلوچستان اور انکی فرزندوں کے متعلق سوچتا اور غور و فکر کیا کرتا تھا کہ اپنی طاقت اور بساط کے مطابق جتنا ہوسکے قربانی دوں۔دشمن انکے جنگی حکمت عملیوں اور گوریلا وار پر انتہائی پریشان تھا، انکی سب سے زیادہ کوشش تھی کہ ملا بہرام اور انکے ساتھیوں کو کسی نہ کسی طرح نقصان پہنچا کر انہیں راستے سے ہٹا دوں۔ قبضہ گیر فوج نے انتہائی کوشش کرکے ملا بہرام کے صفحوں میں مخبر بھیجنے کی کوشش کی لیکن انکو ناکامی نصیب ہوئی، مگر بد قسمتی سے بالآخر دشمن اور مکار فوج نے نئے پالیسیوں اور حکمت عملیوں کے تحت اپنی ناپاک عزائم پر کامیاب ہو کر ڈرون حملے کے ذریعے ملا کے کیمپ پر حملہ کرکے انہیں اپنے سات ساتھیوں کے ساتھ شہید کر دیا گیا، لیکن ملا بہرام کی فکر و فلسفہ آج بھی زندہ ہے۔

ملا جب تک زندہ تھا، لڑتا رہا، وہ ایک بہادر، نڈر مہمان نواز، جنگی اصولوں سے واقف، مجالس کا خوبصورت کردار اور ایک گوریلا سرمچار تھا، انکے ساتھ ساتھ وہ ایک مکمل بلوچ تھا، انکی جام شہادت کے بعد کارروان کے ساتھیوں کو انتہائی پریشان اور افسردہ ہیں، انکے دیوان اور مجالس کا موضوع اور عنوان ہی شہید بہرام اور انکے جنگی داستان ہیں، بلکہ پورے بلوچستان ملا کی شہادت پر سوگ منا رہی ہے، ملا کی شہادت سے تحریک کیلئے ایک بڑے سانحہ سے کم نہیں، ان جیسے گوریلا سرمچار اور عظیم کرداروں کو جنم دینے کیلئے عرصے درکار ہوتے ہیں۔ لیکن شہادت اور قربانیاں آزادی کی جنگ دینے پڑتے ہیں، شہید ملا بہرام اور انکی قربانیوں کو کارروان کے ساتھی ہمیشہ یاد کرتے ہیں، انکے مقصد کو منزل مقصود تک ضرور پہنچائیں گے، یہ ہمارا عزم اور ایمان ہے کہ آزادی کی راہ میں شہید ملا بہرام اور انکے ساتھیوں کے بہائے گئے لحو اور قربانیاں ضرور ایک نہ ایک دن رنگ لائیں گے اور بلوچستان دشمن کی چنگل سے آزاد ہوگا۔

سرزمین کے نرمزاروں اور جانثاروں کو سرخ سلام


٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here