بہرام“ درویش “ | ڈاکٹر جلال بلوچ

ایڈمن
ایڈمن
12 Min Read

کہتے ہیں کہ درویش وہ ہوتا ہے، جو جس نگر بھی جائے وہاں سچے موتیاں نہ صرف بکھرجائیں بلکہ بکھریں ہوئے ان موتیوں سے ایسی مہک پیدا ہو، جو راہ حق کے متوالے پیدا کرنے کا وسیلہ بھی بن جائے، یعنی کہ موتی، موتیوں کے وجود کا سبب بنیں۔

ہم نے بھی راہ ِ آزادی میں چند گراں قدر درویشوں کی زیارت کی، ان کی محفلوں میں بیٹھے، ان کی مسکراہت دیکھی، ان کی وہ پر اثر باتیں سنی جو روح تک سرایت کرجائیں، ہم نے یہ بھی دیکھا کہ ان کی مسکراہٹ، ان کی لب کشائی، ان کی خاموش نگاہیں، ان کا اٹھنا بیٹھنا، الغرض ہر ادا ہر عمل کچھ ایسا کہ دیوانگی کی حد تک کسی کو اپنا گرویدہ بنائیں۔

قدرت کے یہ انمول موتی جن کے چہرے روح پرور، جو مسکرائیں تو لگتا ہے کہ فطرت نے حُسنِ عالم کی کرم فرمائی کے لیے فقط انہی کا ہی انتخاب عمل میں لایا ہو، جو لب کھولیں، تو محفل میں کچھ ایسا سما بندھ جائے کہ عالمانِ وقت بھی اپنے علم پہ شرمندہ ہوں، شاعروں کو اپنی شاعری ہیچ نظر آجائے، پیر خود کو مرید کے درجے میں شمار کریں، مقررخود کو تقریر سے عاری محسوس کریں، قصہ خواں الفاظ ڈھونڈتا پھرے، راقم تحریر بھول جائے۔ قصہ المختصر جب کوئی درویش کسی محفل کا حصہ بن جائے تو پھر دنیا والوں کی ہستی مٹ جاتی ہے۔

اپنی کم علمی کے باجودیہ جانتے ہوئے بھی کہ اس درویش صفت انسان کے کردار کے ساتھ میں انصاف نہیں کرسکتا، لیکن بھر بھی اس خیال سے رقم کرنے کی کوشش کروں گا کہ میں قرض دار ہوں اور قرض دار رہوں گا وطن کے اس درویش کا۔

وہ درویش بلوچستان کا علاقہ ”مند“ گوک“ کا رہائشی اور بلوچ قومی تحریک آزادی کا عظیم رہنما میجر محمد کریم عرفِ مُلا بہرام تھاجو پچھلے دنوں ”مزن بند“ کے پہاڑی سلسلے میں نوآباد کاروں کے ایک ڈرون حملے میں اپنے سات ساتھیوں سمیت شہید ہوگئے۔ ہمارا یہ درویش شہید ہوگیا لیکن اس کے آدرش، کردار اور عمل ہر وقت ہماری رہنمائی کرتے رہینگے اور ان کے کارناموں پہ مورخ قلم کو جنبش دیتے رہینگے۔ ویسے بھی اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ہم اس نتیجے پہ پہنچتے ہیں کہ تاریخ کو چار چاند لگانے والے یہی کردار ہوتے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ یہ کردار دراصل مورخ ہی ہوتے ہیں جو اپنے عمل سے تاریخ رقم کررہے ہوتے ہیں، راقمین یا مورخین کو تو فقط قلم کو جنبش دینے کی ضرورت پڑتی ہے۔۔۔ کردار تو ان سے بہت قبل معرض وجود میں آچکے ہوتے ہیں، جہاں ان کے کارنامے اور ان کا عمل جن میں وہ یکتا ہوتے ہیں جن سے سماج پہ چھائے جمود کے بادل پرے ہٹتے ہیں۔۔۔یعنی تاریخ رقم ہوچکی ہوتی ہے۔

آتے ہیں موضوع کی جانب۔ بات ہورہی تھی درویشوں کی۔ توہاں! ہمار ا بہرام بھی ایک درویش صفت انسان تھا۔ چہرے پہ ہمہ وقت مسکراہٹ لیے، عاجزی و انکساری اس میں کھوٹ کھوٹ کربھری ہوئی تھی، کہہ سکتے ہو کہ وہ عاجزی و انکساری کا پیامبر تھا۔ وہ قناعت پسند تھا، مادی چیزوں کو وہ سراب تصور کرتا تھا۔ڈاکٹر خالدسہیل، خلیل جبران کی کتاب کے حوالے سے رقم کرتا ہے کہ ”ایک عورت نے، جس نے اپنے بچے کو گود میں اٹھایا ہوا تھا، پوچھا، کہ ہمیں بچوں کے بارے میں بتاؤ؟

اس نے کہا کہ۔ تمہارے بچے تمہارے نہیں ہیں
یہ زندگی کی امانت ہیں
انہیں اپنی محبت دو، اپنے خیالات نہ دو
کیوں کہ ان کے اپنے خیالات ہیں
تم ان کے جسموں کا خیال رکھ سکتے ہو
روحوں کا نہیں
ان کی روحیں ”فردا“کے لیے ہیں
جہاں تمہاری رسائی نہیں
خوابوں میں بھی نہیں
ہاں یہی حقیقت ہے کہ وہاں تک رسائی ممکن نہیں۔

جہاں عام انسانوں کی سوچ ختم ہوجاتی ہے وہیں سے ان کی سوچ شروع ہوتی ہے، وہ پہنچ سے باہر ہوتے ہیں، انہیں سمجھنے کے لیے ”فردا“ کی حقیقت سے آشنائی ہونی چاہیے، جب کوئی چار قدم نہ دیکھ سکے اس کی کیا مجال کہ وہ ان کے کرامات، ان کے مقاصد، ان کے کردار اور ان کی صفات سے واقف ہو۔

بہرام درویش کچھ ایسا ہی تھا یا شاید اس سے بھی بڑھکر، اس کی روح آزاد تھی، وہ جانتا تھا کہ میری زندگی، میری جان، میرا تن من امانت ہیں، ان کا خیال رکھنا اور اس مقصد کے لیے جو اجتماع کی تعمیر و ترقی کا باعث ہے، اس کے انہیں وقف کرنا یہی میرے فرائض میں شامل ہے۔

قصہ مشہور ہے درویش ابراھیم ادھم کاجب اس زمانے میں محلوں میں رہا کرتا تھا، اس کے ایک حکم پہ غلام حاضر ہواکرتے تھے۔ایک رات جب وہ اپنے خواب گاہ میں سویا ہوا تھا کہ چت پہ کسی کے قدموں کی آہٹ سنائی دی
پوچھا کہ کون ہے؟
تو آواز سنائی دی کہ میرا اونٹ کھو گیا ہے میں اسے تلاش کررہا ہوں
تو ابراھیم ادھم نے کہا کہ کیا اونٹ چھت پہ ملے گی؟
تو جواب آیا کہ کیا خدا محلوں میں ملتاہے؟

یہ بات سنی اور اگلے دن ابراھیم نے شاہانہ زندگی کو خیربات کہا اور معرفت کی تلاش میں جنگل کی طرف چل نکل پڑا۔اور یہیں سے اس کی درویشانہ زندگی شروع ہوئی جس نے صدیاں گزرنے کے باوجود بھی اسے دلوں میں زندہ رکھا ہوا ہے۔

ہمارا بہرا م درویش بھی جب خلیج میں تھا تو اسے بھی کسی نے کہا ہوگا یا اسے یہ احساس ستایا ہوگا یا پھر اسے الہام ہوا ہوگا کہ اپنی قوم کو راہ نجات دینے کے لیے تمہیں بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں کا رخ کرنا ہوگا، وگرنہ قوم کی زبوحالی ختم نہیں ہوگی۔ اور یہیں سے محمدکریم سے بہرام درویش کا سفر شروع ہوتا ہے۔ اس کے بعد اس ہستی کو جہاں اور جس کسی بھی دیکھا ایک درویش کے روپ میں دیکھا۔ جس کی نگائیں نیچی، آواز میں انکساری، وہ بردبار تھا، وہ تخت و تاج، صفت و ثنا سے بے نیا تھا، وہ مست و ملنگ تھا۔اس کی سوچ ایک اجتماع کے گرد گردشاں رہتاتھا، وہ خاموش طب تھا لیکن جب بھی لب کھولتا تو محفل میں پھولوں کی مہک بکھرجاتی، ایسا لگتا کہ بہرام دررویش کی باتوں پہ پورا گلستان رقصاں ہے۔

بہرام ایک ایسا مجنوں جس کا عشق وطن تھا، وہ ایک ایسے حصار میں خود محسوس کیا کرتا تھا جو وطن پہ شروع اور وطن پہ ختم۔ یعنی اسے یہ درویشی عشق ِ وطن کی وجہ ملی تھی، جہاں اس کی سوچ اس خاکِ عزیز سے طاغوتی قوتوں نکال باہر کرنا تھا، جنہوں سے اسے لہولہاں کیا ہوا ہے۔ جس کوچہ و گدان کا رخ کرو۔۔۔وہاں داستانِ لہو تحریر، جس بستی کا رخ کرو۔۔۔وہاں ماتمی فضائیں، جس پگڈنڈی پہ قدم رکھو!۔۔۔پاؤں لہو میں ڈبو جائیں، جس کوہ و دمن کا رخ کرو۔۔۔وہاں خون کی ندیاں دیکھنے کو ملیں۔الغرض نہ سمندر باقی رہا، نہ کوہ دمن، نہ ہی کوچہ و گدان۔۔۔بہرام درویش کا وطن خونی سیلاب کا منظر پیش کرتا ہے۔۔۔ایسے میں درویش کہاں، کیسے اور کیوں کر چھپ سادھ لے۔ کیوں کہ درویش موت سے گھبراتے نہیں بلکہ اسے خوش آمدید کہتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ دنیا چار دن کی ہے اور اگر باقی کچھ رہیگا تو وہ ہے کردارجو کچھ ایسا ہونا چاہیے کہ صدیوں دلوں میں زندہ رہنے کے قابل ہو۔
اس ضمن میں جلال الدین رومی کا قول ہے کہ
جب ہم مرجائیں تو ہمیں قبروں میں ڈھونڈنے کی بجائے، چاہنے والوں کے دلوں میں ڈھونڈنا
اس کی اس بے خوفی اور بہادرانہ کردار نے اسے حرکت کرنے کے لیے تحریک دی، اس سوچ کے ساتھ کہ یا تو اس آتشی طوفان کو ختم کرنا، یا پھر اپنے لہو سے وطن کو سیراب کرنا۔۔۔ اور یوں بہرام درویش نے خود کو مادر وطن پرقربان کیا۔ وہ عاشق تھا وطن کا۔ وہ شئے مرید اور اس کی حانی بلوچستان۔۔۔وہ للہ، اس کے لیے گراناز اس کی دھرتی۔۔۔ وہ دوستین تھا اور اس کی شرین یہ کوہ و دمن، یہ بحر و بر۔۔۔ وہ پنوں اور اس کی سسی نصیری دھرتی۔۔۔وہ توکلی اور اس کی سمو چاکری وطن۔۔۔وہ کیا اور اس کی سدو اجداد کی گلزمین۔

وہ کامل درویش تھا اس کا محور وطن، فقط وطن اور اس کی آزادی تھا۔وہ سوچتا وطن، اس کے بیان وطن، اس کے خواب وطن اور اس کے خیال میں وطن۔۔۔ہاں وہ گم سم رہتا تھا وطن کے عشق میں۔۔۔یہی عشق تھا جس نے اسے بہرام درویش کا روپ عطا کیا جس کی بہادری کے قصے، جس کے صوفیانہ داستان، جس کی درویشانہ صفت آج ہر سوُ پھیلی ہوئی ہے، جہاں ہر ایک کی زبان پہ ذکرِ بہرام ہے، جس راقم کو دیکھو اس کا قلم درویش بہرام کی صفت میں مشغول، ممبر پہ بیٹھنے والے بہرام درویش کی ثنا میں مصروف، شاعروں کا موضوع بہرام درویش، گیت و سنگیت بھی درویش پہ۔

بہرام درویش! درویش ہی تھا کہ جس پہ آج نازاں ہے وطن اور وطن کے باسی۔۔۔یہ درویش کا بے خوف، لالچ سے عاری، نظریہ و فکر سے مالامال اور قربانی کے جذبہ سے سرشار کردار تھا جہاں اس کی صفت و ثنا جاری ہے اور تاابد جاری رہیگا۔

دشمن کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ درویشوں کی سرزمین ہے ایک بہرام درویش کے جانے سے خاک بانجھ نہیں ہوا، کہ اس خاک میں بہرام درویش کا لہو شامل ہے اور اب اس لہو سے نئی موتیاں (درویش) جنم لینگے،، ہرکوئی بہرام درویش کا روپ لیے تمہیں اس وقت تک چین سے بیٹھنے نہیں دیں گا، جب تک تم نے اس خاکِ درویشاں سے رخت ِ سفر باندھ نہ لو۔اور ان درویشوں کی یہ بات ذہن نشین کرلینا ممکن ہے کہ اپنی بقا کے لیے اس پر عمل بھی کرلو۔دشمن نے آج میری سرزمین پر کربلا کا سما بنایا ہے۔ پر اسے یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ تو تہذیبوں کا سنگم ہے۔۔۔اب بلا کسی ایسی سرزمین اور اس کے باسیوں کو دنیا کی کونسی طاقت زیادہ دیر غلامی کی زنجیروں میں باندھ سکتا ہے جن کی بدولت دنیا تہذیب سے آشنا ہوا۔

***

Share This Article
Leave a Comment