ہمارا عظیم سنائپر | ڈاکٹرجلا ل بلوچ

ایڈمن
ایڈمن
13 Min Read

شہید میجر محمد کریم(مُلا بہرام)

مزاحمت زندگی بخشتی ہے:
بلوچ قوم کو زندگی بخشنے میں اس کی مزاحمتی سرشت نے بنیادی کردار ادا کیا ہے جو گیارہ ہزار سال گزرنے کے باوجود نا صرف اپنا وجود برقرار رکھا ہواہے بلکہ اپنے رسم و رواج اور زبان تک کو سنبھالے رکھا ہے۔ یہ یقیناً ہزاروں سالوں کی مزاحمت کا نتیجہ ہے جس نے قومی تشخص کو زوال پذیرہونے نہیں دیا بلکہ یہ جذبہ آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ ایندھن بن کے زندگی بخش رہی ہے۔

بلوچوں کی مزاحمت کی یہ تاریخ انتہائی طویل ہے جس کا تذکرہ تاریخ کی پہلی کتا ب(بابائے تاریخ ہیروڈوٹس کا سفرنامہ) میں بھی ہم پڑھ سکتے ہیں، اس کے علاوہ غیر تحریر شدہ تاریخ کے مشاہدات سے بھی یہ ثابت ہوتا کہ بلوچ اور مزاحمت کا رشتہ قرنوں پہ محیط ہے۔ غیر تحریر شدہ تاریخی شوائد میں مہرگڑھ کو قدیم ترین تہذیب تصور کیا جاتا ہے۔ وہاں آبادی کی جو سات تہیں دریافت ہوئی ہیں، ان میں آتشی مادے دریافت ہوئے ہیں جن سے یہ ثابت ہوتی ہے کہ وہاں مزاحمت ہوتی رہی ہے۔ لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ مزاحمتی سرشت ہمیں ہمارے اجداد سے ملی ہے۔ انہوں نے بھی زمین کے دفاع میں کبھی پس و پیش سے کام نہیں لیا اور آج ان کے جانشین بھی اپنا تن،من مادر وطن پہ نچاور کرنے کے لیے کمربستہ ہیں۔

تاریخ میں بڑے بڑے کردار آئیں اور اپنے کمالات کی وجہ سے منفرد مقام کے حامل قرار پائیں۔ کتابوں میں جو پڑھا، کسی استاد نے جو پڑھایا، بزرگوں سے جو سنا، رہنماؤں نے جن کی صفت و ثنا بیان کی وہ اپنی جگہ درست۔ حالانکہ بسا اوقات ایسے ناقابل یقین قصے بھی سنیں جن پہ یقین کرنا مشکل ہے، ایسا لگتا تھا کہ یہ ترک علی نہیں، یہ سفرخان نہیں، یہ نورا نہیں، یہ بلوچ خان و بالاچ نہیں بلکہ افسانوی و خیالی داستان ہیں اور ان داستانوں کے یہ مرکزی کردارہیں۔ جن کا سامنا کرتے ہوئے سینکڑوں سپاہیوں میں سے شاید ہی کسی خوش نصیب کو جان بچانے کا موقع مل جاتا۔یا کبھی کبھار ایسا گمان ہوتا تھا کہ اکلیس، ہیرکولیس، یا انابیل کے اساطیری داستانیں سُن رہا ہوں۔لیکن۔۔۔لیکن۔۔۔میں نے دیکھا بھی۔۔۔میں نے سنا بھی۔۔۔ایک نہیں سینکڑوں اکلیس جن کا نام دشمن پہ وحشت طاری کرنے کے لیے کافی تھا۔۔۔جیسے مزاحمت کو زندگی کا روپ دینے والا ہمارا جنرل اسلم، مُردوں میں روح پھونکنے والا سدو (سعادت مری)، جنگ میں دشمن پہ قہر نازل کرنے والا پیرک(میجرنورا)، جنگ کو ایک نیا رخ دینے والا سردو (عبدالواحد)، دلوں پہ راج کرنے والا شہک(سلیمان) اور ان جیسے وہ بہادر جو یا تو مادر وطن کی آزادی کے لیے مورچہ سنبھالے بیٹھے ہیں یا ماں (گلزمین) نے انہیں خودمیں سمویا ہوا ہے۔

انہی بہادروں میں سے ایک کا قصہ بیان کروں گا۔البتہ اس تحریر میں قصہ ہوگا اس کے سنائپر کا۔ اگر اس تحریر میں ذکر ِیار مکمل کرنے کی کوشش کروں تو اوراق کم پڑجائیں گے، اسی لیے بلوچستان کے اس عظیم فرزندکا خاکہ وقتاً فوقتاً بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔

کہتے ہیں کہ یہ بڑی رینج کا یہ جان لیوا ہتھیار نہ صرف لمحوں میں کسی کی جان لے لیتا ہے بلکہ جدید طرز کی گوریلہ جنگ میں دشمن پہ نفسیاتی اثر بھی ڈالتا ہے جس کی وجہ سے وہ مورچوں میں دبک جاتے ہیں انہیں دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے کسی شاہکار کے فن پارے ہوں جو کسی خطرناک دشمن یا آفت ناگہانی کے خوف کی وجہ سے حرکت سے عاری ہوچکے ہیں۔ اس قسم کے ہتھیاروں کو استعمال کرنے کے لیے ٹھیک ہدف پہ نشانہ لگانے کے ساتھ ساتھ صبر و تعمل اور خودکو اس جغرافیہ کے رنگ میں رنگنا بنیادی کمالات میں سے ہیں اور اگر کوئی ان پہ عبور حاصل کرلیں تو اس کا وار دشمن کے لیے اکلیس کا برچہ ثابت ہوگا جس سے خود کو بچانا ممکن ہی نہیں۔ کہتے ہیں کہ میجر محمد کریم(مُلا بہرام) اس جنگ میں دیگر ہتھیاروں کے استعمال کے ساتھ ساتھ اس ہتھیار کا بھی دھنی تھا۔ وہ جس ڈگر کا رخ کرتا کامیابی اس کے قدم چھومنے اس کے پرتپاک استقبال کے لیے وہاں موجود ہوتا۔ یعنی کہ میدان جنگ میں اس کی موجود گی اور اس کا یہ ہتھیار ہی کامیابی کی علامت تصور کیا جاتاتھا۔

کہتے ہیں کہ ایک سنائپر کے پاس اچھی بینائی ہو تاکہ اسے ہدف پہ نشانہ لگانے کے لیے کسی قسم کی دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے، عقلی مہارت کہ کہاں، کب اور کیسے حملہ کرنا ہے اور اس حملے کے اثرات کیا رونما ہوں گے، اپنے ہتھیار کو سمجھنے کی صلاحیت یعنی اس کے بیلسٹک عوامل پہ مکمل عبور حاصل ہونا کہ اس سے نکلنے والی گولی سے دشمن کے نقصانات کیا ہوں گے۔ ایک اچھا سنائپر ایک رہنما کی طرح ہوتا ہے جو پہلے سوچتا ہے ازاں بعد فیصلہ کرتا ہے، وہ ایک کامل منصوبہ ساز ہوتا ہے اسی لیے اسے اس بات کاادراک ہوتا ہے کہ کب، کہاں اور کیسے دشمن پہ حملہ کرنا ہوگا، ایک کامل سنائپر میں یہ صلاحیت بھی ہوتی ہے کہ حملے کے بعد محفوظ نکلنے کے راستوں کا تعین کیسے کیا جاتا ہے۔

محمد کریم (مُلا بہرام) کی اگر جنگی کارناموں پر نظر دوڑائیں تو وہ جہاں بھی گیا کامیابیوں سے لبریز ہوا۔ اس نے دشمن کو غرقِ کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ وہ جہاں بھی جاتا دوستوں کو یہ یقین ہوجاتا کہ ہمارا حملہ کامیاب ہوگا اور ازاں بعد ہم محفوظ و مامون اپنے ٹھکانوں پہ بھی پہنچ جائیں گے۔

ان تمام کامرانیوں میں ہمارے میجرمحمدکریم (مُلا بہرام)کا بنیادی کردار رہا ہے۔ وہ ہمہ تن چوکنا رہتا تھا اور کہتے ہیں کہ سنائپرز شکاریوں کی طرح چوکنا رہتے ہیں، ان کا تقابلی جائزہ دیگر ہتھیاروں سے لیس سپاہیوں سے ممکن ہی نہیں کیوں کہ یہ مخصوص افراد کو یا کہہ سکتے ہو کہ میدان ِ جنگ میں دشمن کے ان افراد کونشانہ بناتے ہیں جن کے مارے جانے کے بعد دشمن کے حوصلے پست ہوجاتے ہیں۔ سنائپرز کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ یہ مضبوط اعصاب کے مالک ہوتے ہیں، ا ن کی مستحکم مزاجی بھی قابل دید ہوتی ہے، ان کا ضرب جب پڑتا ہے دشمن کے قدم ڈگمگانے لگتے ہیں جس سے دشمن کی صفحوں میں دراڑ پڑجاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ اگر سنائپرز یا کوئی ایک سنائپر بھی اپنے ہتھیار کا بخوبی استعمال کریں تو وہ ایک پوری فوج کا راستہ روکنے میں معاون کردار کا حامل ہوگا۔

مُلا بہرام پہ یہ ہتھیار خوب جچتا تھا، ایک تو وہ قدر آور تھا، دورسرا چاک و چوبند، تیسرا جنگی امور پہ مکمل دسترس اور یہ خوبیاں کسی بھی سپاہی کے لیے کامیابی کی دلیل ہوتی ہے۔ الخیر آزادی کی جنگوں میں قدکو دیکھا نہیں جاتا لیکن چاک و بند رہنا ہر سپاہی کے لیے لازم ہوتا ہے کیوں کہ جنگوں میں کاہلی اور سستی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی، اور اس کے علاوہ جنگی امور پہ کمال حاصل۔ جنگ فقط ہتھیاروں سے تیر برسانے کا نام نہیں بلکہ خو د کو اور اپنے ساتھیوں کو محفوظ رکھنے کے ساتھ ساتھ دشمن کو جانی و مالی طور پر نقصان پہنچاتے ہوئے اسے نفسیاتی امراض میں مبتلا کرنا بھی جہد آزادی کے ایک سپاہی کا مقصد ہوتا ہے۔ ایک اور بات کہ ایک جنگی ماہر کے لیے یہ ضروری ہے کہ اسے اپنے اور دشمن کے سماج کا علم ہو کیوں کہ جانکاری رکھنے کے بعد اس کے لیے راہوں کا تعین کرنا آسان ہوگا کہ اپنے سماج کو اپنے مقصد کا گرویدہ کیسے بنایا جاتا ہے اور دشمن کو زیر کرنے کے لیے کون کون سے گُر استعمال کیے جاتے ہیں۔ اگر ایک جنگی معمار تاریخ سے آشناء ہوگا تو اس کے لیے اپنوں کو ترغیب دینا اور متحرک کرنا ہر گز مشکل امر نہیں ہوگا اور دشمن کو زیر کرنے کے لیے منصوبہ تیار کرنا اور اس کی تکمیل انتہائی آسان ہوگا۔ ہمارا بہرام کچھ ایسا ہی تھا۔اور اس کے پاس جو ہتھیار(سنائپررائفل) تھا اس نے اس جنگ آزادی میں اس کا کچھ ایسا استعمال کیا کہ اس سے سدو اور خالد کی ارواح بھی شادماں ہوئیں، انہوں نے اس ہتھیار کے ساتھ کچھ ایسا انصاف کیا یا کہہ سکتے ہیں کہ جب محاذ جنگ میں دشمن پہ قہر نازل کررہا ہوتا تو مادرگلزمین بھی رقصاں ہوتا۔

مُلا بہرام! جنہیں میدان جنگ میں شکست دینا ممکن ہی نہیں تھا کیوں کہ انہوں نے یہ ہتھیار جسے حرفِ عام میں ہمارے ہاں سنائپر کہا جاتا ہے، یہ ہر وقت دشمن پہ عبداللہ خان قہار کی تلوار بن کے نازل ہوتا۔خان عبداللہ خان(خان کلات) جن کی حکمرانی پندرہ برسوں تک رہی اور اس دوران انہیں کسی جنگ میں شکست کا سامنا نہیں کرنا پڑا حتیٰ آخری جنگ میں بھی جس میں ان کی جان تک چلی گئی۔ شہید میجر کریم(ملا بہرام) کا یہ سفر بھی پندرہ سالوں پہ محیط رہا اور اسے بھی کسی محاذ پہ شکست کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اپنی قابلیت، بہادری و قوت کی وجہ سے وہ ہمہ وقت دشمن کے نشانے پہ رہتا تھا۔ دشمن یہ جانتا تھا کہ اس سنائپر نے مکران بھر میں ہمارا جینا دوبھر کردیا ہے لہذا اسے راستے سے ہٹانے کے لیے ہر قیمت ادا کرنی ہوگی۔ کہیں بار دشمن نے کوشش کی لیکن جنگی میدان میں کامرانی ہروقت ہمارے میجر کریم (ملا بہرام) کے حصے میں آیا۔ لیکن آئے افسوس کہ ان جادوئی ہتھیاروں (ڈرون طیاروں) کا جن کے استعمال سے ہمارا ہیرو، ہمارا اکلیس، ہمارا ہیرکولیس، ہمارا عبداللہ خان، ہمارا بلاچ، ہمارا حمل جسمانی طور پر ہم سے جدا ہوگیا۔ جن میں صلاحیت تھی کہ سخت سے سخت حالات سے کیسے نبرد آزما ہونا ہے، اسے کمال حاصل تھا کہ ساتھیوں میں ولولہ کیسے پیدا کیا جائے اور ہمارا بہرام یہ جانتا تھا کہ دشمن پہ غلبہ کیسے حاصل کیا جاتا ہے۔ یہ تما م صفات ہمارے اس ”سنائپر“ میں بدرجہ اتم موجود تھے۔ اس کا یہ علم و ہنر تھا یا کہ جنگی صلاحیتوں کا وہ دیوتا، جس کی وجہ سے وہ منفرد اور جدا گانہ تشخص رکھتا تھا اور رکھتا رہے گا۔۔۔ ہاں تاریخ میں ہمیشہ منفرد کا مقام کا مالک رہے گا کہ مزاحمت زندگی بخشتی ہے۔


٭٭٭

Share This Article
Leave a Comment