یورپی یونین میں تارکین وطن کی ملک بدریوں میں تیزی پر زور

0
136

یورپی یونین میں تارکین وطن کی ملک بدریوں کے عمل کو تیزکرنے پر زوردیا جارہا ہے۔

یورپی یونین کے رکن ممالک کے وزرائے داخلہ نے جمعرات کو اسٹاک ہوم میں منعقدہ اجلاس میں اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ غیر قانونی راستوں سے یورپ آنے والے تارکین وطن کی ملک بدری کے عمل کو زیادہ موثر بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ پیش رفت سویڈن کی میزبانی میں اسٹاک ہوم میں آج منعقدہ اجلاس میں سامنے آئی۔ یورپی بلاک کی صدارت کے حامل ملک سویڈن کی وزیر داخلہ ماریہ مالمر اشٹینرگارڈ کے بقول اس وقت ملک بدری کا عمل غیر موثر ہے۔

یورپی رہنماؤں کے مطابق تعاون نہ کرنے والے ممالک کو اس کی قیمت چکانا پڑے گی۔

اعداد و شمار کے مطابق سن 2021 میں تین لاکھ چالیس ہزار تارکین وطن کی ملک بدری کے احکامات جاری کیے گئے تھے مگر عملدرآمد صرف اکیس فیصد پر ہو سکا۔ یورپی یونین کے داخلی امور کی کمشنر یولوا یوہانسن نے اس بارے میں کہا کہ ملک بدریوں کی موجودہ رفتار بہت سست ہے، ”اس ضمن میں کافی بہتری کی گنجائش ہے۔ ملک بدر کیے جانے والوں کی تعداد بڑھائی جا سکتی ہے اور عمل کو زیادہ موثر بنایا جا سکتا ہے۔“

چند ریاستوں کے وزراء نے یہ تجویز بھی دی ہے کہ جو آبائی ممالک ملک بدری کے عمل میں تعاون نہیں کر رہے، ان کے شہریوں کے لیے ویزے کے حصول کا عمل محدود کیا جائے۔ سویڈش حکومت کا ایسا ماننا ہے کہ اس سلسلے میں آبائی ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیر داخلہ ماریہ مالمر اشٹینرگارڈ نے کہا کہ یورپی حکومتوں کو اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے تارکین وطن کے آبائی ممالک پر زور ڈالنا چاہیے کہ وہ تعاون کریں۔ ان کے بقول ترقیاتی امداد وغیرہ جیسی چیزوں کو تعاون سے جوڑا جا سکتا ہے۔

یورپی یونین کی جانب سے ان ممالک میں ‘ری انٹیگریشن‘ کے کئی امدادی پروگرام چلائے جاتے ہیں، جہاں کی حکومتوں نے ملک بدری کے عمل میں تعاون کا مظاہرہ کیا ہوتا ہے۔ سن 2020 سے ایسا نظام بھی موجود ہے، جس کے تحت یورپ میں ملک بدری کے مستحق قرار دیے جانے والے افراد کے آبائی ممالک اگر انہیں سفری دستاویزات فراہم نہ کریں یا انہیں واپس لینے کے لیے تیار نہ ہوں، تو ایسے ملکوں کے شہریوں کے لیے ویزے کا حصول مشکل بنایا جا سکتا ہے۔

یورپی کمیشن نے سن 2021 میں تجویز پیش کی تھی کہ یہ نظام بنگلہ دیش اور عراق پر بھی لاگو کیا جائے مگر فی الحال اس سلسلے میں کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here