سنگر کا دستاویزی رپورٹ و تجزیہ
چیف ایڈیٹر دوستین بلوچ کے قلم سے
سال 2022 میں مقبوضہ بلوچستان میں ریاستی جارحیت میں اضافہ اور بلوچ سرمچاروں کی جانب سے پاکستانی فورسز پر حملوں میں بھی تیزی دیکھنے میں آئی۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق سال 2022 میں پاکستانی فورسز نے مقبوضہ بلوچستان میں 521 فوجی آپریشنز میں عوام کو جارحیت کا نشانہ بنایا،جس میں 649 افراد کو جبری گمشدہ کرنے کے ساتھ284 نعشیں برآمد ہوئیں۔39 لاشوں کو بغیر شناخت یا مسخ ہونے کی وجہ سے بغیر ڈی این اے کے دفنایا گیا،جبکہ87 لاشوں کے محرکات سامنے نہ آسکے۔
اسی سال فورسز کے ساتھ وطن کی دفاع،زیر حراست قتل،یا فورسز کی فائرنگ سے142 بلوچ شہید ہوئے۔
پاکستانی فورسز نے دوران جارحیت ایک ہزار سے زائد گھروں میں لوٹ مار کے ساتھ پانچ سو سے زائد گھروں کو نذر آتش کیا،اور زمینی و فضائی بربریت سے ڈیڑھ ہزار سے مال مویشی مارے گئے اور سو سے زائد فورسز اپنے ساتھ لے گئے۔
ریاستی عقوبت خانوں سے75 افراد بازیاب ہوئے جو اسی سال یا جبری گمشدہ کیے گئے۔25 افراد کو جعلی مقابلوں میں قتل کرنے کے ساتھ دس کو زیر حراست قتل کیا گیا۔
تمام ریاستی مظالم کے ساتھ2022 کا سورج غروب ہوا اور2023 کا سال یقینا بلوچ کے لیے کم تکلیف دہ نہیں ہو گا،اتحاد بہترین سیاسی حکمت عملی،نظم و ضبط،بہترین مزاحمتی حکمت عملی اور ادارتی تنظیمی سسٹم نئے سال میں پاکستانی فوج کی کمر توڑ کر رکھ دے گی۔بلوچ جہد کاروں کی جہد مسلسل کو تقویت دینے کے لیے سیاسی طور پر منظم حکمت عملی کے ساتھ دنیا کو یہ باور کرانا ہو گا کہ پاکستانی جارحیت بلوچ کی اجتماعی نسل کشی میں خطرناک حد تک اضافے کا سبب بنتے ہوئے ہمسایہ ممالک کے لیے بھی پایہ دار امن کے لیے خطرہ ہے۔
اس جدید ٹیکنالوجی کے دور میں بیرونی ممالک سرگرم بلوچ نیشنل موؤمنٹ اور دیگر انسانی حقوق کے ادارے جو بلوچ قوم کے اوپر جاری ریاستی جارحیت کو اجاگر کرنے کے دعوئے دار ہیں انکو اپنی پالیسیوں میں وقت کے ساتھ تبدیلی لاتے ہوئے تمام پلیٹ فارمز خاص کر سیمینار،میٹ دی پریس،کانفرنسز کے ساتھ سفارتی حکمت عملی بناتے ہوئے دنیا پر واضح کرنا چائیے کہ بلوچ کی سرزمین ایک مقبوضہ زمین ہے،قابض ریاست انسانی حقوق کی پامالیوں میں دنیا کی تمام حدوں کو پار کر چکی ہے اس لیے اسے انصاف کے کٹہرئے میں لاتے ہوئے بلوچ قوم کی اپنی قومی شناخت کا حق دیا جائے۔
اس خطے کے اقوام بالخصوص بلوچوں کی جدوجہد ایسے مقام پہ پہنچ چکا ہے جو انہیں کامیابی سے منزل کی جانب لے جانے کا سبب بنے گا۔ان کی تحریک کی شدت نے آج دنیا پہ بھی ان کی طاقت افشاں کیا ہے۔ ان کی کامیابیوں سے پاکستان حواس باختہ ہوچکا ہے جہاں آئے روز عام بلوچ اس کی جبر کا نشانہ بن رہاہے۔۔۔عالمی سیاست کی اس رسہ کشی نے 2022 میں مختلف اطراف میں کروٹ بدلی۔ پاکستان کی جانب، تو یہاں وہی پرانی پالیسیاں جوں کے توں رواں ہیں۔آئے روز فوجی جارحیت، بلوچ فرزندوں کی جبری گمشدگیاں، مسخ شدہ لاشوں کا ملنا وغیرہ۔یعنی کہہ سکتے ہیں قابض پاکستان کی نوآبادیاتی پالیسیوں میں آئے روز شدت ہی آرہی ہے۔جس کا نشانہ نہ صرف بلوچ بلکہ خطے میں بسنے والے دیگر محکوم اقوام پشتون،کشمیری،گلگت بلتستان،کچھ ہی سہی سندھی بھی بن رہے ہیں۔ معاشی طور پہ خستہ حال پاکستان شاید زیادہ دیر اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکے اسی لیے آج کل وہ مغرب سے مایوس ہوکر روس اور چائنا کا لے پالک بننے کی کوششوں میں مصروف ہے لیکن روس کی حالیہ جنگ جس میں اسے بڑی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ اہے تو ایسے میں وہ پاکستان جیسے ملک کو سہارا دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے اس کے علاوہ بھارت کے عنصر کو دیکھ کر بھی یہ یقین ہوتا ہے کہ روس بھارت کے مقابلے میں پاکستان کو ترجیح نہیں دے رہا۔ لہذا حالیہ عالمی سیاست میں پاکستان تنہائی کا شکار ہورہا ہے جو یہاں بسنے والے محکوم اقوام کے لیے نیک شگون ہے۔
ان حالات سے فائدہ اٹھا کر محکوم اقوام کو یک مشت ہونا پڑے گا اور اگر وہ تمام ایک ہی پیج پہ آگئے تو پاکستان بے ساکیوں کے سہارے بھی اپنا وجود سنبھالنے سے قاصر ہوگا۔ اس ضمن میں بلوچوں کی جدوجہد تو شدت کے ساتھ جاری ہے لہذا دیگر اقوام کو بھی بلوچوں کے نقش قدم پر چل کر آگے بڑھنا ہوگا اسی میں ان کی بقاء اور پاکستان کا زوال ہے۔ پاکستان اپنی اندرونی اسٹیبلشمنٹ کے بل بوتے پر کھڑی سیاسی ڈھانچے کو بچانے کی دوڑ میں بلا آخر عمران خان نیازی اور جنرل باجوہ کے درمیان اختلاف پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے اور یوں فوج کی اپنی جماعت وقتی طور پر اقتدار سے فارغ کر دیا گیا اور جنرل باجوہ نے ریٹائر ہونے سے پہلے اپنی بی ٹیم کو فوجی اعلیٰ عہدوں پر پہنچا دیا۔پاکستان گرتی معاشیت کے ساتھ عالمی منڈی میں سخت مشکلات کا شکار ہے اور یقینا نیا سال بھی انکے لیے کوئی نئی ریلیف نہیں لائے گی،البتہ پی ٹی آئی کو لے کر سابق جنرل فیض،شاہ محمود گروپ نئی قیادت لانے اور نیازی کو آرام دینے کی کوششوں میں مصروف ہیں،باجوہ اور فیض کے ہزار اختلاف مگر وہ ہیں تو ایک ہی فوجی نسل کے اس لیے حالات کسی بھی وقت کروٹ بدل سکتے ہیں۔
ایک نیگ شگون محکوم اقوام کشمیری اور گلگت بلتستان کے عوام ریاست کی قبضہ کے خلاف احتجاج کرتے دیکھے گئے ہو سکتا ہے سماجی مسائل انکو اپنی قومی شناخت کی سوال کے لیے ریاست کے خلاف مضبوط جہد کی جانب لے آئے گی،دوسری جانب پشتون بھی اپنی سہی فوج کے خلاف احتجاج پر ہیں لیکن انکی بلند آوازمنظور پشتین اپنی قومی شناخت کو لے کر پشتون قوم کی مستقبل کا فیصلہ یا اپنی مقاصد سے کوسوں دور ہے ہو سکتا ہے پشتون نئے سال قابض ریاست کے خلاف کھل کر سامنے آئیں اوراپنی آزادی کی مانگ کریں۔
بلوچ قوم نے 2022 میں نئی تاریخ رقم کی،شاری بلوچ نے 26اپریل کو کراچی میں چائینز سامراج پہ فدائی حملہ کرکے خود کو تاریخ میں منفرد مقام پہ پہنچایا۔
عورت نے جہاں عام معاشرتی زندگی میں کارہائے نمایاں سرانجام دی ہیں وہاں حوا کی بیٹی مزاحمتی یا جنگی میدان میں بھی منفرد مقام رکھتی ہے۔ وہ چاہے ویتنام کی ترنگ بہنوں کا آزادی کی جنگ میں کارنامے ہو ں، سندھ کی بیٹی بلقیس (باگھل بائی) کا سامراجی قوتوں کے خلاف مزاحمت، افغان شیرنیاں بخت نامہ، ملالئی انا، نازوتوخی، ہندوستان کی جھانسی کی رانی، رضیہ،رانی ویلیونچار، کمانڈر کھلی، فرانس کی جون آف آرک یا پھر بلوچستان کی بانڈی،حانی، مائی بیبو، بی بی زینب، گل بی بی۔۔۔ ان کے کارناموں سے تاریخ بھری پڑی ہیں جنہیں یہ اقوام فخریہ بیان کرتے ہیں۔
”ماضی خود کو دہراتی ہے“ یہ قول مشہور ہے۔ جس طرح بلوچ تاریخ میں عورتوں نے گراں قدر کارنامے سرانجام دیے ہیں انہی کے نقش پا پہ چل کر گزشتہ دنوں ایک اور بلوچ بیٹی خود کووطن پر نچارو کرگئی۔ بلوچ بیٹی ”شاری“ کا یہ حملہ فدائی تھا، یہ بلوچ جنگِ آزادی میں پہلا موقع ہے جہاں ایک عورت قوم کے روشن مستقبل کے لیے دشمن پہ بجلی بن کر گرپڑی۔ ویسے بھی فدا ئی حملہ عورت کی ایجاد ہے جہاں 1780ء میں جنوبی ہندوستان میں رانی ویلیونچیار کی ایک کمانڈر”کمانڈرکھلی“ نے ایسٹ انڈیا کمپنی پہ حملہ کیا جس کی وجہ سے اس جنگ میں ہندوستانیوں کو فتح نصیب ہوئی۔
اکتیس سالہ شاری بلوچ کیچ کے علاقے نظرآباد سے تعلق رکھتی تھی۔ شاری کا پورا خاندان اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے اور وہ خود بھی ایم اے، ایم ایڈ کی ڈگری حاصل کرچکی تھی اور اب زولوجی میں ایم فل کرناچاہتی تھی لیکن وطن کی دفاع نے انہیں مزید تعلیم کے حصول کا موقع نہیں دیا اور یوں وہ 26اپریل کو کراچی میں چائینز سامراج پہ فدائی حملہ کرکے خود کو تاریخ میں منفرد مقام پہ پہنچایا۔
اعلیٰ تعلیم یافتہ اور سیاسی اداروں میں تربیت حاصل کرنے کے بعد وہ اس نتیجے پہ پہنچ چکی تھی کہ قوم اور دنیا کو جگانے کے لیے کچھ ایسا کارنامہ سرانجام دیا جائے جو انہیں میرے وطن اور قوم کے بارے میں سوچنے پہ مجبور کرے۔لہذا اسی نظریے اور فکر نے انہیں بہروں کو جگانے کے لیے اکسایا۔ وہ جانتی تھی کہ غلامی سے نجات کے لیے جب تک منفرد عمل نہیں کیا جائے گا تب تک منزل پہ پہنچنا ممکن ہی نہیں اور یوں انہوں نے وہ کارنامہ سرانجام دیا جس کی مثال بلوچ تاریخ میں ناپید ہے۔ شاری بلوچ کی شہادت کے بعد بلوچ قوم اور دیگر آزادی پسندقوتوں نے جہاں اس امر کو زوروشور سے سراہا تو دوسری جانب قابض کے چند گماشتے اس کے نمک کا قرض ادا کرتے رہے لیکن دنیا شاید ہے کہ نمک کے مقابلے میں مٹی کا قرض ادا کرنے والوں کا عمل انہیں تاابد سرخرو رکھتی ہے۔ ویسے بھی جنگوں اور مزاحمت سے نابلد افرد احمقانہ اور قیاس آرائیوں پہ مبنی تنقید کا سہارا لیتے ہیں لیکن جنہیں جنگی علوم پہ دسترس حاصل ہوں یا وہ اس عمل کا حصہ ہوں تو وہ ہر اس عمل کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جو قوم میں حرارت پیدا کرنے کی وجہ بنتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ بلوچستان کی بیٹی شاری بلوچ کا یہ عمل جو بلوچ تاریخ میں سب سے منفرد مقام کا حامل ہے، طلوع صبح کی نوید ثابت ہوگی۔
حرف آخر:
سال2023 میں بلوچ قوم کی نظریں قومی تحریک کے پالیسی میکر کی جانب ہیں کہ وہ کس طرح حکمت عملی بناتے ہوئے دشمن کو ہر محاذ پر شکست سے دوچار کرنے کے ساتھ سیاسی حوالے دنیا کے سامنے اس دہشت گرد ریاست کا خاکہ پیش کرتے ہیں۔ ان حالات سے فائدہ اُٹھا کر بلوچ آزادی پسند لیڈران اور تنظیموں کو اپنی خارجہ پالیسیوں پر نظر ثانی کر کے جامع پالیسی بنانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ حالات کے رخ کو اپنی جانب موڑ سکیں اور دنیا کو قابض پاکستان کی دہشت گردانہ پالسیلوں سے آگاہ کرنے کے ساتھ اس خطے میں بلوچ ریاست کی ضرورت سے آگاہ کریں جس سے اس خطے میں نہ صرف طاقت کا توازن برابر ہو سکے گا بلکہ امن و شانتی آئے گی۔
٭٭٭