وسائل سے مالا مال بلوچستان میں مالی بحران شدت اختیار کرگئی ہے۔نہ گندم ہے،نہ سرکاری ملازمین کو دینے کیلئے تنخواؤں کیلئے پیسے ہیں۔کٹھ پتلی حکومت بلوچستان کی پوری وسائل پاکستان کودینے کے بعد اب اس سے گندم اور پیسے کی بھیک مانگ رہی ہے لیکن وفاق وہ ٹھس سے مس نہیں ہورہی۔
اس سلسلے میں کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ بلوچستان قدوس بزنجو نے کہا ہے کہ بلوچستان کے پی پی ایل کے ذمہ 34 ارب کے بقایا جات ہیں۔وزیراعظم ذاتی دلچسپی لے کر بلوچستان کو مالی بحران سے نکالیں،پنجاب نے 6 لاکھ بوری گندم کی فراہمی کا وعدہ کیا تھا امید ہے کہ وہ اپنا وعدہ پورا کریں گے۔
قدووس بزنجو کاکہنا تھا کہبلوچستان میں گندم اور مالی بحران پر تمام اتحادیوں کو اعتماد میں لیا ہے۔بلوچستان کے مالی بحران کے حل میں وفاق کی جانب سے تاحال سرد مہری کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ گندم کے بحران کو حل کرنے کے لئے وفاق حکومت فوری طورپر اپنا کردار ادا کرے۔
انہوں نے کہاکہ ہم نے بارہا وفاق سے کہا کہ ہم خیرات نہیں بلکہ این ایف سی میں اپنا حصہ مانگ رہے ہیں مالی بحران اسی طرح برقرار رہا تو تمام ترقیاتی کاموں کے علاؤہ تنخواہیں دینے کے قابل بھی نہیں ہونگے۔
انہوں نے کہاکہ سیکورٹی کی مد میں بھی این ایف سی میں 1 فیصد ہمیں اضافی شیئر دیا جائے۔ بلوچستان کے پی پی ایل کے ذمہ 34 ارب کے بقایا جات ہیں وزیراعظم ذاتی دلچسپی لے کر بلوچستان کو مالی بحران سے نکالیں۔
دوسری جانب کٹھ پتلی وزیر خزانہ بلوچستان زمرک اچکزئی نے کہا ہے کہ بلوچستان حکومت این ایف سی ایوارڈ کے گزشتہ سال کے 11ارب روپے اور رواں مالی سال کے 32 ارب روپے کے واجبات کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔
گزشتہ مالی سال میں بلوچستان کو این ایف سی کے پروٹیکٹڈ شیئر میں سے 11ارب روپے کم ملے اور اسی طرح رواں مالی سال کے دوران بلوچستان کو دسمبر تک 157 ارب روپے ملنے چاہیے تھے۔ اس سال دسمبر تک وفاق نے 125 ارب روپے ٹرانسفر کیے اور اب تک 32 ارب روپے کا شارٹ فال موجود ہے۔ انجینئر زمرک کا کہنا تھا کہ اگر این ایف سی میں بلوچستان کے شیئر کو آئینی تحفظ حاصل ہونے کے باوجود پوری رقم ٹرانسفر نہیں کی جاتی تو صوبے کا مالی بحران مزید شدت اختیار کریگا، جس سے مسائل جنم لیں گے فنڈز کی عدم دستیابی سے نہ صرف ترقیاتی عمل متاثر ہور ہاہے بلکہ ہمارے لئے ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی بھی مشکل ہو جائے گی۔