گوادرمیں عوامی احتجاج کیخلاف فوج کشی کے بھیانک نتائج بر آمد ہونگے،بی ایس او

0
95

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ پچھلے دو سالوں سے گوادر کے لوگ بنیادی حقوق کیلئے مسلسل پر امن احتجاج کر رہے ہیں۔ دو ماہ سے مسلسل احتجاجی دھرنا دیا جا رہا ہے مگر نا اہل مسلط کردہ حکمران اپنا وعدہ نبھانے اور گوادر کے ھزاروں بلوچ محنت کشوں کو ان کا بنیادی حق فراہم کرنے کی بجائے جبر و تشدد اور فوج کشی پر اتر آئے ہیں جو کہ قابل مذمت اور نا قابل قبول ہے۔

مرکزی ترجمان نے کہا کہ یہ ان مسلط کردہ کالونیئل حکمرانوں کا شیوہ اور نفسیات رہا ہے کہ پر امن عوامی تحاریک کو یلغار و بے رحم تشدد اور فوج کشی سے کچلا جائے مگر یہ ان نادانوں کی بھول ہے، ریاست کا غیر منطقی وحشیانہ جبر عوام کو مزید اپنی تحریک کو منظم کرنے میں مدد دیتا ہے اور انہیں منظم، محتاط و طاقتور بنا دیتا ہے۔

گوادر کی تحریک ھزاروں لاکھوں بلوچ محنت کشوں کی تحریک ہے جن کے مطالبات بنیادی انسانی حقوق کے ارد گرد ہیں۔ اپنی عمر و تسلسل کی بنا پر یہ عوامی تحریک اب یہ ثابت کر چکا ہے کہ اس کو کسی فرد یا گروہ کے گرد محدود کردینا بہت بڑی غلطی ہوگی۔ اس لیے آج ضروری امر یہ ہے کہ اس تحریک عوام تک پہنچ کر ان کا ساتھ دیا جائے اور اس مزاحمت کو مزید طاقت و توانائی بخشی جائے۔

مرکزی ترجمان نے کہا قابل افسوس امر یہ ہے کہ بلوچ قوم دوست حلقوں نے گوادر کے اس عوامی تحریک کو اپنانے میں سیاسی بزدلی کا مظاہرہ کیا اور اسے وقتی ابھار سمجھنے کی غلطی کی، جب تحریک توانا ہوکر ابھری اور عوامی شرکت و جہد مسلسل اپنے اثرات قائم کرنا شروع ہوئی تو اس تحریک کے خلاف ہر طرف سے زہر افشانی شروع ہوگئی۔ مگر عوامی تحاریک نہ پروپیگنڈوں سے روکے جاسکتے ہیں نہ ہی کسی میر و سردار کی خواہش کے مطابق جھک سکتے ہیں۔ تبھی آج اس مضبوط تحریک کو ختم کرنے اور کچلنے کیلیے یہ سیاسی جماعتیں ریاست کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ اور گوادر کے عوام پر ہونے والی جبر و تشدد پر خاموش تماشائی بن کر زیرِ لب مسکرا رہے ہیں۔

گوادر میں بلوچ عوام پر تشدد کا جواب دہ وہاں بلوچستان نیشنل پارٹی کے نمائندے اور صوبائی اسمبلی کے ممبر حمل کلمتی بھی ہیں جن کی پارٹی اس وقت مرکز میں بر سر اقتدار ہے جب کہ صوبائی سطح پر حکومت کا دست راست، اور ان کی جماعت کا گوادر تحریک کے حوالے سے بیانیہ بھی اس تشدد کی بنیاد بن رہا ہے۔ جو کہ ایک تاریخی کلنک ثابت ہوگا۔

مرکزی ترجمان نے کہا کہ گوادر تحریک کے خلاف کریک ڈائن، عام بزگ بلوچ عوام پر وحشیانہ تشدد و پولیس کشی اور فوج کشی کے بھیانک نتائج بر آمد ہونگے۔ ان ابھرتے ہوئے متشدد حالات میں تمام قومی نمائندوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ بلوچ عوام کی نمائندگی کیلیے آگے بڑھیں نہ کہ اس سے گریزاں رہیں۔

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن گوادر کے بلوچ عوام پر ہونے والی جبر و بربریت کی شدید الفاظ میں مذمت کرتی ہے اور ان کے مطالبات کی حمایت میں کھڑی ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here