ریکوڈک غیر ملکیوں کے حوالے کرکے مزاحمتی تحریکوں کو ایندھن فراہم کردیا گیا،کنرانی

0
140

سپریم کورٹ بار ایسوسیشن کے سابق صدر امان اللہ کنرانی نے اپنے بیان میں کہا کہ ملک و صوبے کی عدالتوں نے دو اہم نوعیت کے دور رس فیصلے صادر کیے، عدالت عظمی کا فیصلہ انتہائی مایوس کن و قابل تشویش ہے۔

انہوں نے کہا کہ عدالت عالیہ کا فیصلہ لائق پذیرائی و تحسین ہے، جس میں ملک کی بڑی عدالت نے اپنی تاریخ دھراتے ہوئے 1954ء میں جسٹس منیر و 2000ء میں جسٹس ارشاد حسن خان کے فیصلے کی پیروی کرتے ہوئے نظریہ ضرورت کو دوبارہ زندہ کردیا ہے جبکہ اس سے قبل اسی بنچ کے سربراہ چیف جسٹس و اکثریتی ممبران نے آئین میں تحریف کرتے ہوئے پارٹی کے فیصلے سے انحراف کرنے والے ممبران کی نااہلی کے آئین کی شق میں اضافہ کرتے ہوئے ان کے ووٹ کسی جرم و عمل سے قبل شمار نہ کرنے کا نرالا مشورہ صدر مملکت کو دیا جبکہ اسی سے منسلک کئی درخواستیں و اپیلیں متاثرہ فریقین کی عدالت عظمیٰ میں آج بھی زیر التوا ہیں مگر ان کا فیصلہ کرنے کے بجائے نظریہ ضرورت و کسی کی خواہش کی تکمیل میں وہ کچھ لکھ دیا جو آئین میں نہیں لکھا، بین ہی اسی طرح آج بھی 2013 ء میں فریقین کے نالش کا قطعی فیصلہ ہونے کے باوجود آئین کے آرٹیکل 186 کے روح و مندرجات کے برعکس کسی کی خواہش کو جاتے جاتے پورا کردیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ یوں ہماری عدالت عظمیٰ کے چند ججوں عدالتوں کے وقار کا بیچ چوراہے پر سودا کرلیا، جسٹس منیر کے سیاہ فیصلے سے مشرقی پاکستان کے علیحدگی کی راہ ہموار ہوئی آج ریکوڈک بلوچستان کے وسائل غیر ملکی قوتوں کے حوالے کرنے سے صوبے میں جاری مزاحمتی تحریکوں کو ایندھن فراہم کردیا گیا ہے جس کے مستقبل میں بھیانک نتائج نکل سکتے ہیں جس طرح 26 اگست 2006ء کو نواب بگٹی شہید کو تراتانی کے سنگلاخ پہاڑوں کے اندر نشانہ بناکر سمجھا گیا صوبے میں امن قائم کردیا گیا ہے مگر گزشتہ دو دھائیوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ ہم امن سے کوسوں دور چلے گئے پہلے لوگ ترقی و خوشحالی کے لئے ترستے تھے اب امن و آشتی کے پیاسے بن گئے ہیں، جان و مال و عزت کو تارتار وسائل کو ہڑپ و بلوچ شناخت کو داغدار کردیا گیا ہے اگرچہ ایسے میں صوبے کی کوئی موثر آواز نہ ہونے سے یہ مسئلہ پس پردہ جاسکتا ہے مگر یہ چنگاری سلگتی رہے گی جس کے شعلے ملک کو لپٹ میں لے سکتے ہیں اس سے قبل سی پیک کے نام پر صوبے کے حقوق کو غصب ایک نو آبادیاتی کے نظام کے طرز پر اس کی اتھارٹی وفاق اور ریٹائرڈ جنرل کے باتھ میں دیے گئے اب ریکوڈک میں بھی ایسی ہی تاریخ دھریاجائے گی۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کو واضح طور پر گریٹ گیم کا آماجگاہ بنادیا گیا ہے پہلے گوادر سی پیک چائنا کو دے کر امریکہ اس کے اتحادیوں کو ناراض کیا گیا اب ریکوڈک امریکہ و اس کے اتحادی آسٹریلیا،برطانیہ و کینیڈا اور چلی کو دے کر ان کو خوش کردیا گیا ہے اور اپنے لئے سرکار کے کل پردازوں نے براڈ شیٹ کی طرز پر بیرون ملک ڈیل کے شکوک و شبہات میں اضافہ کردیا پہلے غیرملکی ثالثی ٹریبونل سے 6 ارب ڈالر کے ہرجانہ کی بات تھی اب اس کو بڑھا چڑھا کر 11 ارب ڈالر بتایا گیا جبکہ یہی رقم اس پراجیکٹ کے شفاف طریقے سے نیلام و بولی کے ذریعے دیگر کمپنیوں سے بھی حاصل کی جاسکتی تھی جو ریکوڈک پراجیکٹ کی ریفائنری صوبے کے اندر لگانے پر راضی تھے مگر حکومت و عدالت و مقتدر حلقوں کی ھٹ دھرمی و غیر منصفانہ رویے سے بلوچستان کے مفادات کو زبردست دھچکہ لگا ہے جبکہ آج صوبے کی عدالت نے جسٹس ہاشم کاکڑ و جسٹس عبدالحمید بلوچ پر مشتمل ڈویژن بنچ نے جرات مندانہ فیصلے کے ذریعے طاقت کے نشے میں دھت حلقوں کو انصاف کی پکار پر لبیک کہنے کا بگل بجادیا ہے جس میں سینیٹ آف پاکستان کے معزز رکن کی تکریم کا تحفظ کرتے ہوئے ان کے خلاف بے بنیاد فوجداری مقدمات کو خارج کرنے کا حکم دے کر اپنی غیر جانبداری و خدا کے سوا کسی کے سامنے سرنڈر نہ کرنے کا اعزاز حاصل کرلیا ہے جو صوبے کے لئے باعث فخر ہے دونوں جج صاحبان نے اپنے صوبے کی مٹی کا حق ادا کردیا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here