شام میں ترکیہ کے حملوں کی کیخلاف ہزاروں کردوں کا احتجاجی مظاہرہ

0
248

شام کے شمالی علاقوں میں ترکیہ کے حالیہ فضائی حملوں کی مذمت میں ہزاروں کردوں نے شام کے قامشلی شہر میں احتجاجی مظاہرہ کیا ہے۔

شام میں مظاہرین نے کرد فورسز کے زیر کنٹرول علاقوں پر ترکی کی زمینی کارروائی کی دھمکیوں کی بھی شدید مذمت کی۔

یاد رہے 20 نومبر کو ترکی نے عراق میں ”پی کے کے“ کے ٹھکانوں کو اور شام میں کرد ”پیپلز پروٹیکشن یونٹس” کی سربراہی میں ”سیرین ڈیموکریٹک فورسز” کے ٹھکانوں پر فضائی حملے شروع کئے تھے۔ ترکی کا کہنا تھا کہ یہ حملے 13نومبر کو استنبول میں ہونے والے بم دھماکے کے جواب میں کئے جا رہے ہیں۔ استنبول دھماکے میں 6 افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔ ترکی نے اس حملے کا الزام شام اور عراق میں موجود کرد پارٹیوں پر لگایا۔ تاہم دونوں کرد پارٹیوں نے استنبول دھماکے میں اپنے کسی کردار کا انکار کردیا ہے۔

بعد ازاں ترکی نے شام میں کرد فورسز کے زیر کنٹرول علاقوں کے خلاف فضائی حملوں کی دھمکیاں دینا بھی شروع کر دیں۔ کردوں کے حامی واشنگٹن اور دمشق کے اہم حامی ماسکو کے ایسا کرنے سے باز رہنے کی تنبیہ کے باوجود ترکی نے زمینی کارروائی کی دھمکی دینا جاری رکھا ہے۔

اتوار کو قامشلی میں ہزاروں افراد نے ترکی کے حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی تصویریں اٹھائے ہوئے مظاہرہ کیا اور نعرے لگائے۔ ان نعروں میں ایران کو اقتدار سے ہٹاؤ اور مزاحمت زندہ باد کے مفہوم کے نعرے شامل تھے۔ مظاہرین نے ترکی میں قید کرد رہنما عبداللہ اوکلان کی تصاویر بھی اٹھا رکھی تھیں۔ ایک بینر پر یہ بھی لکھا تھا کہ ترک ریاست کے ساتھ تعاون تمام لوگوں کے ساتھ دشمنی ہے۔

مظاہرین میں سے ایک 55 سالہ صلاح الدین حمو نے اے ایف پی کو بتایا کہ ہم دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہمیں سب کے سامنے ختم کیا جا رہا ہے، ایک احتجاجی کارکن سہام سلیمان (49 سال) نے کہا کہ کرد لوگوں کی مرضی کو توڑا نہیں جاسکا۔ ہم اپنی سرزمین اور اپنے بچوں کی قبروں کو نہیں چھوڑیں گے۔

یہ مظاہرہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوآن نے اتوار کو ہی کہا کہ ترکی کو حق حاصل ہے کہ وہ سرحد کے اندر اور باہر اپنی سلامتی کو برقرار رکھے اور کوئی بھی ترکی کو اپنا یہ حق استعمال کرنے سے نہیں روک سکتا۔

انہوں نے کہا ترکی کو اپنی سلامتی کے تحفظ کے لیے اپنی سرحدوں کے باہر جن علاقوں کی نشاندہی کی گئی ہے ان کو ٹھکانے لگانے کا حق حاصل ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here