ایران: حکومت مخالف مظاہرین کے ہلاکتوں کی تعداد 326 ہوگئی

0
307

ایران میں انسانی حقوق کے ایک ادارے کے تازہ اعدادوشمار کے مطابق مہساامینی کی تہران میں اخلاقی پولیس کے زیرحراست موت کے بعد سے ملک بھر میں ہونے والے مظاہروں کے خلاف کریک ڈاؤن میں سکیورٹی فورسز نے 326 افراد کو ہلاک کردیاہے۔

ایران میں 16ستمبرکومہساامینی کی موت کے بعد شروع ہونے والے مظاہروں نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھاہے۔یہ مظاہرے خواتین کے لباس کے قوانین کے خلاف غیظ وغضب کے اظہار کیلیے کیے جارہے ہیں اور یہ 1979 کے انقلاب کے بعد سے ایران پر حکمرانی کرنے والی شیعہ مذہبی قیادت کے خلاف ایک وسیع تحریک کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔

اوسلو میں قائم انسانی حقوق ایران (آئی ایچ آر)نے اپنی ویب سائٹ پر پوسٹ کیے گئے ایک بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ ملک بھر میں جاری مظاہروں میں سکیورٹی فورسز نے 326 افراد کو ہلاک کردیا ہے۔ان میں 43 بچے اور 25 خواتین شامل ہیں۔

اس گروپ نے اس سے پہلے 5 نومبر کوہلاکتوں کے اعداد و شمار جاری کیے تھے اور اس وقت 304 ہلاکتوں کی اطلاع دی تھی۔اس طرح اب ایک ہفتے میں ہلاکتوں میں 22 کا اضافہ ہوا ہے۔

ان میں ایران کی پاکستان کے ساتھ جنوب مشرقی سرحد پر واقع صوبہ سیستان بلوچستان میں ہلاک ہونے والے 123 افراد بھی شامل ہیں۔ان میں سے زیادہ تر افراد 30 ستمبر کو سیستان،بلوچستان کے دارالحکومت زاہدان میں نماز جمعہ کے بعد مظاہرین پر سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے تھے۔

یہ مظاہرے اس صوبہ کے ساحلی شہر چاہ بہار میں ایک پولیس کمانڈرکے ہاتھوں ایک15 سالہ لڑکی کی مبینہ عصمت ریزی کے واقعہ کے خلاف شروع ہوئے تھے۔

آئی ایچ آر کے ڈائریکٹر محمود امیری مقدم نے عالمی برادری پر زوردیا کہ وہ کریک ڈاؤن کو روکنے کے لیے جلد از جلد کارروائی کرے۔انھوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی جانب سے بین الاقوامی تحقیقات اورجواب دہی کے طریق کار کے قیام کا مطالبہ کیا تاکہ مستقبل میں مجرموں کا احتساب کرنے کے عمل میں آسانی ہو اوراسلامی جمہوریہ ایران کی جبروتشدد کی کارروائیوں کو رکوایا جاسکے۔

ان کا کہنا ہے کہ تنظیم ابھی دیگر ہلاکتوں کی اطلاعات کی تحقیقات کررہی ہے۔اس کا مطلب ہے کہ ہلاک ہونے والوں کی اصل تعداد یقینی طور پر اس سے زیادہ ہوسکتی ہے۔

انسانی حقوق کی ایک اور تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی ایسے میکانزم کا مطالبہ کیا ہے جس کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ اس کی حمایت دس لاکھ سے زیادہ افراد کی جانب سے دست خط کردہ ایک پٹیشن کے ذریعے کی گئی ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here