بلوچستان میں قوم پرستانہ سیاست پرمکمل قدغن ہے،سیکر ٹری جنرل بی این ایم

0
230

بلوچ نیشنل موومنٹ کے سیکریٹری جنرل ہیں دلمراد بلوچ نے ریڈیو زرمبش اردو کے ساتھ ایک انٹرویومیں بی این ایم کی پالیسیوں، بلوچ قومی سیاست کے مشکلات اور آئندہ کے لائحہ عمل کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں قوم پرستانہ سیاست پرمکمل قدغن ہے۔

انہوں نے کہا کہ کسی بھی سیاسی پارٹی کے لیے سیاست پر قدغن، لیڈرشپ کا قتل اور جبری گمشدگیاں واقعی میں مشکل مراحل ہوتے ہیں۔ بی این ایم نے ان حالات کا سامنا کیا ہے۔ ہماری پوری لیڈرشپ کو قتل کیا گیا۔ مرکزی رہنماء اب تک زندانوں میں قید ہیں۔غلام محمد، لالا منیر، ڈاکٹر منان جان، رسول بخش مینگل،حاجی رزاق،صمدتگرانی، رزاق گل، استاد علی جان جیسے لیڈرقتل کیے گئے۔ غفور جان اور ڈاکٹر دین محمد جیسے ساتھی خفیہ زندانوں میں قید ہیں۔ ہمارے سیاسی عمل پرمکمل قدغن ہے۔ جس پر بھی ذرا سا شک ہوتا ہے تو اس کا اٹھایا جانا اور قتل کرنا یقینی ہے۔ ان مشکل مراحل سے گزرکر یہاں پہنچنا پارٹی کی بہت بڑی کامیابی ہے۔اس کے علاوہ تحریک کے صفوں میں بھی اختلافات کے نام پر ایک بے سود لہر آئی جس سے نہ صرف تحریک بلکہ بلوچ سماج میں بھی ایک بے چینی کا ماحول پیدا ہوا لیکن ہماری لیڈرشپ کی سیاسی بصیرت اور دور اندیشی کی وجہ سے ان حالات کا مقابلہ کیا اور پارٹی کے وقار کو برقرار رکھا۔

ان کا کہناتھا جہاں تک حالیہ سیشن کی بات ہے، اسے بھی میں پارٹی کے لیے نہایت اہم کامیابی تصور کرتا ہوں کہ ان حالات میں بھی ہم سیشن کے انعقاد میں کامیاب ہوئے۔ بلوچ، خطے کی سیاست پربحث ہوا، اہم فیصلے کیے گئے۔ وقت و حالات ایسے ہیں کہ تمام فیصلے منظر عام پر نہیں لاسکتے لیکن اتنا بتا سکتا ہوں کہ بلوچستان میں کام کرنے کے طریقہ کارمیں بنیادی تبدیلیاں کی گئیں۔ ڈائسپورہ کو مزید منظم اورموبلائز کرنے کے لیے طریقہ کار وضع کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں قوم پرستانہ سیاست پرمکمل قدغن ہے،خواہ وہ پارٹی سیاست ہویا طلباء سیاست، پاکستان نے ہمارے لیے کام کرنے کے تمام ذرائع مسدود کیے ہیں، لیکن ان حالات میں کام کرنا ہی ایک آزادی پسند و انقلابی پارٹی کے لیے اصل امتحان ہے۔ ہم نے بلوچستان میں کام کرنے کے طریقہ کار میں وقت و حالات کے ضرورتوں کے مطابق تبدیلیاں کی ہیں۔اس غرض سے ہم نے پارٹی آئین میں ترامیم کیں، وقت و حالات کے تقاضوں کے مطابق کام کے لیے آئین میں گنجائش پیدا کیا گیا۔ بلوچستان میں اب نئے طریقہ کارکے مطابق کارکن محفوظ طریقے سے کام کررہے ہیں اور اس کے نتائج حوصلہ افزاء ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پارلیمانی پارٹیاں بھی قوم پرستی کا دعویٰ کرتی ہیں لیکن وہ قوم پرستی کے معیار پر پورا نہیں اترتے۔ جہاں تک نئے اداروں کا تعلق ہے، اس خلا کو بھرنے کے لیے دو طرح کی قوتیں میدان میں نظرآتی ہیں ایک وہ جنھیں پاکستانی مقتدرہ نے لانچ کیا ہے جیسا کہ باپ وغیرہ ہیں دوسرے وہ جنھیں بلوچ قوتوں نے بنایا ہے یا وہ ایک قوم پرستانہ نعرے کے ساتھ میدان میں اترے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ تنظیمیں واقعی بلوچ سیاسی خلا کو پر سکتی ہیں یا تاریخ کے سفر میں محض دھول بن جاتے ہیں۔ دوسری طرف حالات گوکہ مشکل ہی سہی لیکن بی این ایم جیسے قوم پرست پارٹی کی موجود گی میں ہمیں نئے اداروں کی ضرورت محسوس نہیں کرنی چاہیے، آئیں بی این میں ایم شامل ہوجائیں،پارٹی کو مضبوط کریں اور بلوچ کاز کو آگے بڑھائیں۔

مغربی بلوچستان کے حوالے سے ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ بی این ایم نہ صرف مغربی بلوچستان کو بلوچ قومی وحدت کا حصہ سمجھتی ہے بلکہ افغانستان کے زیرانتظام بلوچستان کو بلوچ قومی وحدت کا حصہ سمجھتا ہے۔ ہمارے یہاں ایک مسئلہ یہ ہے کہ مغربی بلوچستان کے مسئلے پر کافی لفاظی ہوتی ہے۔ کیا واقعی میں آپ کے پاس وہ قوت موجود ہے جو آپ بیک وقت دو محاذ کھولیں؟ حقیقت یہ ہے کہ دو مختلف مملکتی بندوبست نے بلوچ قومی نفیسات، قومی نظریہ اور جدوجہد پر کافی اثرات مرتب کیے ہیں۔ مغربی بلوچستان میں قوم پرستانہ سیاست کی وہ صورت حال نہیں ہے جو مشرقی بلوچستان میں ہے۔ اب آپ مشرقی بلوچستان کی طرزسیاست کو مغربی بلوچستان پر مسلط بھی نہیں کرسکتے اور نہ ہی آپ اس پوزیشن میں ہیں کہ مشرقی بلوچستان میں بیٹھ کرمغربی بلوچستان کے لیے تحریک چلائیں۔ البتہ مشرقی بلوچستان میں ہماری تحریک جتنی مضبوط ہوگی اس کے اثرات دیگر بلوچ خطوں پر پڑسکتے ہیں۔ لہٰذا اہم یہ ہے کہ ہمیں اپنی توانائیاں وہاں صرف کرنی چاہئیں جہاں آپ کی قوت و طاقت موجود ہے اور آپ کا گراونڈ ہے۔ اور اس وقت ہماری جدوجہد ہم سے یہ تقاضا بھی کرتی ہے کہ ہم اپنی دشمنوں کی تعداد بڑھانے کے بجائے کم کریں۔

انہوں نے کہا کہ ایک طرف پاکستانی بیانیہ ہے جو بلوچ قومی تحریک کو خطے کی صورت حال سے جوڑتے ہیں کہ یہ ابھار گیارہ ستمبر اور افغانستان میں امریکہ کی موجودگی سے وجود میں آیا، پاکستانی میڈیا، سیاسی پارٹیاں اور دوسرے ادارے اس کا بہت زیادہ پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو امریکی انخلا کے بعد بلوچ قومی تحریک کو ماند پڑنا چاہیے تھا لیکن عام مشاہدہ کہتا ہے کہ امریکی انخلاکے بعد تحریک میں تیزی آئی ہے۔ بلوچ قومی تحریک ایک انڈیجینئس تحریک ہے خطے اور بین الاقوامی تبدیلیاں ایک حد تک اثرانداز ہوسکتی ہیں لیکن مکمل طور پر نہیں کیونکہ یہ تحریک بلوچ قوت بازو پر انحصار کرتی ہے۔ بلوچ قوم اسے سات دہائیوں سے جاری رکھا ہوئی ہے۔ ان سات دہائیوں میں دنیا میں کئی تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ پاکستان نے جارحیت میں کبھی بھی کمی نہیں کی ہے مگر بلوچ قوم ڈٹی رہی ہے اور آج بھی مقابلہ کر رہی ہے۔ اس میں کئی شخصیات اور جماعتوں کا کردار رہا ہے۔ بی این ایم ان میں سے ایک ہے۔

بین الاقوامی سطح پرچیلنجز ضرور ہیں، ہم بطور پارٹی ان کامقابلہ کرسکتے ہیں۔ گوکہ بین الاقوامی سطح پہ ہم کوئی بڑے اسٹیک ہولڈر نہیں لیکن ہماری سیاسی تاریخ،ہماری تزویراتی جغرافیائی اہمیت اورمضبوط تحریک کو ملا کر دیکھا جائے تو عالمی طاقتوں کے لیے بلوچ قوم کونظرانداز کرنا مشکل ہے۔اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ عالمی طاقتوں کے مستقبل کے لیے منصوبہ بندیوں کا بلوچستان اہم جزو ہوگا۔ عالمی طاقتیں ایک دوسرے نبرد آزما ہیں۔ وہ ایک دوسرے کو کئی لحاظ سے کمزور کرنے کی کوششوں میں ہیں۔ ہم بھی اسی دنیا اور ایک ہی زمین پر بستے ہیں۔ ہم دنیا سے الگ نہیں ہیں تو ہماری ضروریات، دلچسپی اور مفادات بھی الگ نہیں ہیں۔ آج ہم ایک ایسے موڑ پر ہیں کہ ہم دنیا سے اپنے مفادات ہم آہنگ کرکے دوست بنا سکتے ہیں اور چیلنجز کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here