کیوبا میں ہم جنس شادیوں اور گود لینے پر ریفرنڈم

ایڈمن
ایڈمن
4 Min Read

رواں برس کے اوائل میں ان مسائل پر بحث کے لیے 79,000 سے بھی زیادہ پڑوسیوں کے درمیان اجلاس منعقد کیے گئے تھے۔ کمیونسٹ حکومت بھی اس خیال کی حامی ہے، تاہم چرچ کے رہنماؤں نے پھر سے اس کی مخالفت شروع کر دی ہے۔

کیوبا میں لوگوں نے اتوار کے روز ہم جنسوں کی شادی، گود لینے کو قانونی حیثیت دینے، کرائے کی کوکھ کی اجازت دینے اور نان بایولوجیکل والدین کو زیادہ حقوق دینے جیسے مسائل پر ہونے والے تاریخی ریفرنڈم میں ووٹ کیا۔

کیوبا میں ہر دوس برس کے اندر پارلیمانی انتخابات ہوتے ہیں، تاہم کسی خاص قانون میں ترمیم یا نیا قانون وضع کرنے کے لیے ملک میں یہ ریفرنڈم ایک تاریخی چیز ہے۔

سولہ برس سے زیادہ عمر کے 80 لاکھ سے زیادہ کیوبا کے شہری ان تجاویز کے لیے ”ہاں ” یا ”نہ” میں ووٹ دینے کے اہل ہیں۔ ملک کی کمیونسٹ حکومت نے ان تجاویز کی حمایت کی ہے لیکن کیتھولک اور ایونجیلیکل چرچ کے رہنماؤں نے اس پر تنقید کی ہے۔

ریفرنڈم مہم کے آخری ہفتے میں سرکاری ٹی وی چینلوں، ریڈیو اور سوشل میڈیا پر مساوات کے حامی پیغامات نشر کیے گئے۔ اس کے لیے بہت سے مقامات پر جاذب نظر بل بورڈز نصب کیے گئے اور بہت سی عوامی ریلیوں کا بھی اہتمام کیا گیا۔

ووٹ سے قبل صدر میگوئل ڈیاز کینیل نے اپنے متعدد ٹویٹ پیغامات میں کیوبا کی عوام سے ”جمہوریت کے حق میں ” ہاں میں ووٹ دینے کی اپیل بھی کی تھی۔

کئی دہائیوں کے ظلم و ستم کے بعد گزشتہ 20 برسوں کی کاوشوں کی وجہ سے کیوبا میں ہم جنس پرستی کے بارے میں سرکاری رویے میں نمایاں تبدیلی آئی ہے۔

سن 2019 میں حکومت نے ملک کے نئے آئین میں ہم جنس شادی کو شامل کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن چرچ کی تنقید کے بعد اپنے فیصلے سے پیچھے ہٹ گئی تھی۔ بشپ کی کانفرنس ایک بار پھر موجودہ تجویز کے خلاف ہے۔

حکومت کی ایما پر خاندانی حقوق پر عوامی بحث کو آسان بنانے کے لیے فروری اور اپریل کے دوران ملک بھر میں 79,000 سے بھی زیادہ میٹنگز منعقد کی گئیں۔ سرکاری میڈیا کے مطابق ان ملاقاتوں کے نتیجے میں مسودے کے اصل متن میں نصف سے زیادہ ترامیم کی گئی ہیں۔

سیاسی امور کے ماہر رافیل ہرنینڈز کا کہنا ہے کہ ہم جنس شادی سے متعلق یہ ریفرنڈم کیوبا میں سن 1959 کے انقلاب کے بعد ”انسانی حقوق سے متعلق سب سے اہم قانون سازی” ہے۔

کیوبا کو بھی دنیا کے بیشتر ممالک کی طرح اقتصادی بحران کا سامنا ہے اور معاشی بے چینی کی وجہ سے ریفرنڈم کا ووٹ متاثر ہو سکتا ہے۔ بین الاقوامی سیاحت میں کمی اور امریکی پابندیوں کی وجہ سے کیوبا کو اس وقت 30 سالوں میں بدترین معاشی بحران کا سامنا ہے۔

لاطینی امریکہ کے ماہر برٹ ہوف مین نے خبر رساں ادارے رائٹرز سے بات چیت میں کہا کہ ”مسئلہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ احتجاج میں یا حکومت کی وفاداری میں ووٹ ڈال رہے ہیں، جو کہ مسودے کے مواد سے کہیں زیادہ اہم ہے اور یہ شرم کی بات ہو گی۔”

Share This Article
Leave a Comment