بلوچ لاپتہ افراد لواحقین کے احتجاجی کیمپ کو 4754 دن ہو گئے

0
139

بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ میں بلوچ جبری لاپتہ افراد اور شہداء کے بھوک ہڑتالی کیمپ جاری ہے جسے 4754 دن ہو گئے ہیں۔

معروف صحافی اور تجزیہ نگار منیزہ جہانگیر سمیت دالبندین سے سیاسی سماجی کارکن عزیز احمد بلوچ،محمد نواز بلوچ اور دیگر مرد وخواتین نے کیمپ آکر لواحقین سے اظہارِ یکجہتی کی۔

وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جو اپنی ذات کے بجائے قومی اجتماعی مفاد کی بات کرتا ہے ریاست ان کو نشانہ بناتی ہے، ریاست ایسی پالیسیاں بناتی ہیں کہ اپنے لیے سوچو دوسروں کے بارے میں نہیں، اس کے لیے وہ ایسی پالیسیاں مرتب کرتی ہے انہی پالیسیاں کا ثمر ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے خفا اور بیگانہ ہیں ہر کوئی بے بس ہے کس ہے انہوں نے مزید کہا کہ بلوچ قوم اپنے پرامن جہد کر رہی ہے قربانی دے رہی ہے اس لیے ریاستی فورسزز اور خفیہ ادارے پورے بلوچ قوم کے دشمن بنے ہوئے ہیں بلوچستان کے مختلف علاقوں سے بلوچوں کو جبری لاپتہ کرنا روز کا معمول ہے سرحدوں پر ایسے حالات بنائے گئے ہیں کہ ایک علاقے کا بلوچ دوسرے علاقے میں نہ جا سکے ہزاروں سال بلوچ جس سرزمین کے مالک ہیں آج ان کی اپنی سرزمین ان پر تنگ کر دی گئی ہے سرحدوں کو بلوچوں کے آمد و رفت کیلیے بالکل بند کردیا گیا ہے روزگار کے دروازے مکمل بند ہیں۔ وسیع عریض سمندر کے ہوتے ہوئے بلوچ پینے کے پانی کے لیے ترس رہے ہیں جبکہ نشہ اور اشیاء کی سپلائی خفیہ اداروں کے نگرانی میں بدستور جاری ہے۔

ماما قدیر نے مزید کہا کہ بلوچ قوم کے عظیم فرزندوں نے جبری لاپتہ افراد کے بازیابی کے لیے اپنے پاک لہو گرا کر قوم کے باغیرت عوام کی ضمیر جگائی یہ ان شہیدوں کی قربانیوں کا ثمر ہے پورا قوم قبضہ گیر کے خلاف دیوار کی طرح کھڑا ہے دشمن جتنی زیادہ ظلم کرتا ہے زیادہ لاشیں گراتا ہے نفرت دو گناہ زیادہ بڑھ جاتی ہے جب نفرت بڑھ جاتی ہے تو یہ فطری عمل ہے کہ انسان کا خوف ختم ہو جاتی ہے اگر ہم بلوچ پرامن جد وجہد پر نظر دوڑائیں تو بلوچ قوم میں لاشیں پھینکنے کے وقت ہر سیاسی ورکر اور عوام میں خوف کی ایک بڑی لہر نے پورے سماج پر قبضہ کیا ہے ہر تیسرا آدمی موت کے خوف سے دور بھاگنے کی کوشش کر رہا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here