بھارت کے خدشات کے باوجود چین کا جاسوسی کرنے والا بحری جہاز ’یوآن وانگ فائیو‘ منگل کی صبح کو سری لنکا کی بندرگاہ ہمبنٹوٹا پہنچ گیا ہے۔ وہ وہاں ایک ہفتے تک رہے گا۔
سری لنکا میں امریکہ کے سفیر نے بھی جہاز کے وہاں پہنچنے کی خبروں پر تشویش ظاہر کی تھی۔ اس کے بعد یہ معاملہ سری لنکا کے لیے ایک سیاسی مسئلہ بن گیا ہے۔
سری لنکا نے چین سے بحری جہاز کو روانہ کرنے کے فیصلے کو ملتوی کرنے کو کہا تھا البتہ بیجنگ نے سیکیورٹی خدشات کو بے بنیاد قرار دیا جس کے بعد سری لنکا نے ہفتے کو اس کی اجازت دی۔
سری لنکا کی وزراتِ خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ چین کے جہاز کی آمد کے معاملے پر فیصلہ کرنے کے دوران پڑوسی ممالک کی سیکیورٹی اور باہمی تعاون کو اہمیت دی گئی ہے۔
جہاز کے بندرگاہ پہنچنے کے بعد کولمبو میں سری لنکا کے بعض ارکانِ پارلیمان نے بھی تشویش کا اظہار کیا اور ایک بیان میں حکومت کے فیصلے کو غلط قرار دیا۔ ان ارکانِ پارلیمان کے مطابق چین یہاں سے کافی دور ہے، جب کہ بھارت سب سے قریبی ملک ہے۔ بھارت کا اسے اپنی سلامتی کے لیے چیلنج سمجھنا درست ہے۔ مزید برآں یہ کہ بھارت نے اقتصادی بحران کے دوران سری لنکا کو چار ارب ڈالر کی امداد دی تھی۔
ہمبنٹوٹا بندرگاہ چین کی مالی مدد سے تعمیر کی گئی ہے۔ سری لنکا نے ایک ارب 12 کروڑ ڈالر کے عوض چین کے ہاتھوں بندرگاہ 99 سال کے لیے گروی رکھ دی ہے۔ بندرگاہ کی اسٹریٹجک اہمیت کے پیشِ نظر چین وہاں اپنی موجودگی کو یقینی بنانا چاہتا ہے اور اسی اہمیت کی وجہ سے ہی بھارت اس کی مخالفت کرتا ہے۔
چین کا کہنا ہے کہ ’یو آن وانگ فائیو‘ بین الاقوامی جہاز رانی، تحقیق اور سروے کرنے والا جہاز ہے البتہ مبصرین کے مطابق یہ جاسوسی کرنے والا جہاز بھی ہے۔
امریکہ کے محکمہ دفاع پینٹاگان کا کہنا ہے کہ ’یوآن ونگ فائیو‘ سیریز کے تحت آنے والے اس جہاز میں ٹاپ آف دی لائن اینٹینا اور الیکٹرانک آلات نصب ہیں جو میزائلوں اور راکٹوں کو ٹریک کر سکتے جب کہ ان کے لانچ میں بھی مدد کر سکتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق یہ جہاز 750 کلومیٹر تک نگرانی کرسکتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ مشرقی ساحل پر بھارت کی اسٹریٹجک سرگرمیاں اس کی نظر میں رہیں گی۔
نئی دہلی کا خیال ہے کہ اس جہاز سے بھارت کی کودن کولم اور کلپکم جوہری تنصیبات جب کہ چنئی اور تھوٹوکودی بندرگاہوں کے تحفظ کو بھی خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔
چین نے بھارت یا امریکہ کا نام لیے بغیر کہا ہے کہ اس کی سائنسی تحقیق کی سرگرمیاں بین الاقوامی قوانین کے مطابق ہیں اور کسی تیسرے فریق کو اس میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔
چین کے ذرائع ابلاغ کے سرکاری ادارے ’گلوبل ٹائمز‘ نے چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان کے حوالے سے کہا کہ چین کا جہاز کے ہمبنٹوٹا بندرگاہ پر پہنچنے پر سری لنکا کے صدر کے نمائندے سمیت وہاں کے متعدد اہلکاروں نے چینی سفیر کی منعقدہ خیرمقدمی تقریب میں شرکت کی۔
نئی دہلی میں مبصرین کا کہنا ہے کہ چین کے جاسوسی بحری جہاز کے معاملے پر بھارت کی تشویش فطری ہے۔ سینئر تجزیہ کار رویندر کمار نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ چین خطے کی بہت بڑی طاقت ہے۔ یہاں اس کے اپنے مفادات ہیں۔ اسی لیے وہ چاروں طرف سے بھارت کو گھیرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہ اپنی اسی حکمتِ عملی پر عمل کر رہا ہے۔