پوپ کاکینیڈا کے مقامی باشندوں کیخلاف کیتھولک چرچ کے کردار پر معافی

ایڈمن
ایڈمن
5 Min Read

پوپ فرانسس نے کینیڈا میں کیتھولک چرچ کے زیر انتظام مقامی رہائشی اسکولوں کی ہولناکیوں پر معذرت کی۔ کینیڈین حکومت نے انیسویں اور بیسویں صدی کے دوران تقریباً ڈیڑھ لاکھ مقامی بچوں کو ان کے خاندانوں سے دور کردیا تھا۔

پوپ نے کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو اور کینیڈا کی پہلی قدیمی مقامی خاتون گورنر جنرل میری مے سائمن سے بھی ملاقات کی۔

پیر کے روز پوپ کا پہلا پڑاؤ مسکواسیس شہر میں تھا جہاں ملک کے سب سے بڑے رہائشی اسکولوں میں سے ایک اسکول واقع ہے۔ پوپ نے وہاں ایک اندازیکے مطابق 15,000 افراد سے بات کی جن میں کینیڈا بھر کے سابق طلبا بھی شامل تھے۔ متاثرین سے خطاب کرتے ہوئے پوپ فرانسس نے ‘دکھ‘ کا اظہار کیا اور متاثرین سے درخواست کی کہ وہ کینیڈا کے قدیمی مقامی اسکول پروگرام میں کیتھولک چرچ کے کردار پر معافی، شفا اور مفاہمت پر عمل کریں۔ پاپائے روم نے کینیڈا کے مقامی بچوں کے ساتھ بدنام زمانہ بدسلوکی کی یاد میں محسوس ہونے والے ‘غضب‘ اور ‘شرم‘ پر بات کی۔

انہوں نے کہا کہ ”میں معافی کا خواستگار ہوں۔ میں خاص طور پر ان طریقوں کے لیے معافی مانگتا ہوں جن سے کلیسیا اور مذہبی برادریوں کے بہت سے ارکان نے ثقافتی تباہی اور جبری گداگری کے منصوبوں میں اپنی بے اعتنائی کے ذریعے تعاون کیا۔“

اس موقع پر موجود قدیمی مقامی رہنماؤں اور کیتھولک چرچ کی زیادتیاں سہہ کر بچ جانیوالوں نے پوپ کے الفاظ پر محتاط ردعمل ظاہر کیا ہے۔ قدیمی مقامی باشندوں کی مینی ٹوبا سرداروں کی اسمبلی کے گرینڈ چیف کارنیل میکلین نے کہا کہ ”معافی مانگنے سے ان لاپتہ بچوں کے درد میں کمی نہیں آتی جو کبھی گھر واپس نہیں آئے۔ تاہم ہم چرچ کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ ٹھوس وعدے اور حقیقی معاوضے دے کر مفاہمت کے جذبے کے تحت آگے بڑھے۔“

کیتھولک چرچ کی بدسلوکی سہنے والیایک قدیمی مقامی وکیل ولٹن لٹل چائلڈ نے پوپ کو بتایا کہ انہیں امید ہے کہ ”آج صبح ہماری ملاقات اور جو الفاظ آپ نے ہمارے ساتھ شیئر کیے وہ آنے والی کئی نسلوں میں حقیقی شفا اور حقیقی امید کے ساتھ گونجیں گے۔“ تاہم دوسرے چند رہنماؤں کا کہنا تھا کہ پوپ نے وضاحت کے ساتھ ان مظالم کا ذکر نہیں کیا جو چرچ نے کینیڈا کے مقامی بچوں پر ڈھائے تھے۔

پوپ فرانسس نیکیتھولک مشنریوں کی جانب سے مقامی لوگوں کے ساتھ کی جانے والی ”برائی” کے لیے کینیڈا کی سرزمین پر معافی مانگنے کے لیے اپنے ہفتے بھر کے دورے کو ‘شفا اور مفاہمت‘ کی ‘تپسیا‘ قرار دیا۔

کینیڈین حکومت نے سن 1800 سے سن 1990 تک کے درمیانی عرصے میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ مقامی بچوں کو ان کے خاندانوں سے دور کردیا تھا۔ انہیں کیتھولک بورڈنگ اسکول بھیجا گیا تھا۔ اِن بچوں کو مغربی ثقافت میں ضم ہونے پر مجبور کیا گیا اور بہت سے بچوں کو چرچ کے عملے کی طرف سے جسمانی تشدد اور جنسی زیادتی کا نشانہ بھی بنایا گیا۔

گزشتہ سال سے لے کر اب تک کیتھولک چرچ کے زیر انتظام سابق اسکولوں کے مقامات پر بے نشان قبروں میں سینکڑوں مقامی بچوں کی باقیات دریافت کی گئی ہیں۔کینیڈا کے قومی سچائی اور مفاہمتی کمیشن نے اس ”ثقافتی نسل کشی” کی مذمت کی ہے۔

تاہم پوپ نے ‘نسل کشی‘ کی اصطلاح استعمال کرنے سے گریز کیا اور اس کے بجائے اسکولوں میں ‘ثقافتی تباہی‘ پر معذرت کی۔ پچاسی سالہ پوپ فرانسس روم واپس جانے سے قبل کینیڈا کے دور ترین شمالی علاقے نوناوت کے دارالحکومت اکالوئٹ میں مقامی باشندوں کی انوئٹ کمیونٹی سے معافی مانگنے کے ساتھ اپنے دورے کا اختتام کریں گے۔

Share This Article
Leave a Comment