تربت میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے سی پیک شاہراہ بلاک | اسد بلوچ

ایڈمن
ایڈمن
5 Min Read

ضلع کیچ کے مختلف علاقوں سے سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں لاپتہ کیے گئے افراد کی فیملی نے منگل کی صبح سی پیک شاہراہ ایم ایٹ کو تربت ڈی بلوچ پوائنٹ پر بلاک کرکے دھرنا دے رکھا ہے۔


ان لاپتہ افراد کا تعلق ضلع کیچ کے علاقے ہوشاپ، شھرک اور دشت سمیت مختلف مقامات سے ہے جن کی بازیابی کے لیے ان کے لواحقین نے ایم ایٹ شاہراہ کو تربت میں بلاک کردیا ہے۔


لاپتہ افراد کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ اس سے قبل ہمارے ایک احتجاج میں مقامی انتظامیہ نے ہمیں اپنے ان لاپتہ پیاروں کی بازیابی کی بہت جلد یقین دہانی کرائی تھی جس کے نتیجے میں ہم نے احتجاج موخر کیا تھا لیکن پھر تربت انتظامیہ اپنے وعدے سے مکر گئی اور مجبوراً ہمیں دوبارہ سڑکوں پر آنا پڑا لیکن اس بار ہم نے احتجاج میں شدت لانے کا فیصلہ کرکے سی پیک شاہراہ کو بلاک کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
لاپتہ افراد کے اہل خانہ نے بظاہر تو صرف ایک دن یعنی آج منگل کےلیے احتجاج کا اعلان کیا تھا مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب وہ اس احتجاج کو طول دینے کا ارادہ رکھتے ہیں اور اسے لاپتہ افراد کی بازیابی تک غیر معینہ مدت کے لیے جاری رکھنا چاہتے ہیں۔


ڈی بلوچ پوائنٹ سی پیک شاہراہ پر احتجاجی دھرنا کی حمایت حق دو تحریک بلوچستان کے علاوہ تربت سول سوسائٹی سیاسی اور مذہبی تنظیموں نے کررکھی ہے۔


اس کے علاوہ مقامی آبادی سے خواتین اور بچے بھی بڑی تعداد میں یکجہتی کے طور پر احتجاجی دھرنا میں موجود ہیں۔
حق دو تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمن بلوچ اور بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے مرکزی ہیومن رائٹس سیکرٹری سعید فیض نے گوادر سے تربت آکر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے ان کے اہل خانہ سے یکجہتی ظاہر کی اور دھرنا کے شرکاء سے خطاب کیا۔


دھرنا میں موجود لاپتہ شفیق احمد کی بہن نے بتایا کہ ان بھائی کو اس سال 7 مارچ کو سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں نے لاپتہ کردیا۔ ان کے بقول شفیق احمد علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں نچلی گریڈ کا ایک ملازم ہے ہمیں یہ نہیں سمجھ آرہا کہ اسے کیوں لاپتہ کیا گیا ہے اور نا ہی ان کے اٹھانے والوں نے ان کے قصور یا گناہ سے ہمیں آگاہ کیا ہے۔


وہ احتجاج کو شفیق احمد اور دیگر لاپتہ افراد کی بازیابی تک جاری رکھنے کے خواہاں ہیں۔


یاد رہے کہ جامعہ کراچی میں چائنیز ثقافتی مرکز کنفیوشس بلاک کے سامنے رواں برس ایک خودکش حملہ کے بعد بلوچستان سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں خصوصاً ایسے طالب علم جو بلوچستان سے باہر ملک کے اعلی تعلیمی اداروں میں پڑھ رہے ہیں ان کے کریک ڈاؤن اور جبری گمشدگی کے کیسز میں خاصا اضافہ دیکھنے میں نظر آیا ہے۔


جامعہ کراچی میں خود کش حملہ آور ایک خاتون شاری بلوچ تھی جن کا تعلق ضلع کیچ سے تھا اس حملہ کی زمہ داری سرکاری سطح پر کالعدم قرار دی گئی بی ایل اے نے قبول کی تھی۔


اس وقت جبکہ تربت میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے سی پیک شاہراہ پر احتجاج کیا جارہا ہے، اسی طرح کراچی پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا احتجاجی کیمپ تین دنوں سے جاری ہے اور راولپنڈی میں ایرڈ یونیورسٹی کے طالب علم فیروز بلوچ اور دیگر لاپتہ بلوچوں اور طلبہ کی جبری گمشدگی کے خلاف بھی ایک احتجاجی کیمپ قائم کیا گیا ہے۔


حق دو تحریک کیچ کے ڈپٹی آرگنائیزر محمد یعقوب جوسکی لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاجی دھرنا میں شامل ہیں، حق دو تحریک نے اس احتجاج کی حمایت کا اعلان کیا ہے، محمد یعقوب جوسکی کے مطابق جب تک لاپتہ افراد کے اہل خانہ یہاں بیٹھ کر احتجاج کریں گے ہماری سپورٹ ان کے ساتھ ہوگی، ان کے بقول حق دو تحریک لاپتہ افراد کے اہل خانہ کو عملی طور پر اخلاقی اور سیاسی تعاون دیتی رہے گی کیونکہ ہم نے اس کا باقاعدہ فیصلہ کیا ہے۔


یاد رہے کہ وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ریاض پیرزادہ نے حال ہی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بلوچستان میں چند تخریبی واقعات کے تناظر میں ایسے افرادکی سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے جانے کا انکشاف کیا ہے جو ان کے بقول بظاہر تو لاپتہ ہیں لیکن دراصل وہ دہشتگردی کے واقعات میں ملوث ہیں۔

***

Share This Article
Leave a Comment