کراچی: سندھ پولیس کے ہاتھوں گرفتار28 بلوچ خواتین ومردد رہا

ایڈمن
ایڈمن
4 Min Read

پاکستان کے صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں پولیس نے سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں لاپتہ بلوچ طلبہ کی بازیابی کے لیے سندھ اسمبلی کے سامنے جاری احتجاج میں شریک خواتین و بچوں سمیت مرد افراد کو منتشر کرنے کے لیے ان پر تشدد کیا جس میں شیر خوار بچے بھی زخمی ہوگئے۔

پولیس کارروائی کے دوران انسانی حقوق کے کارکنوں، صحافی اور لاپتہ بلوچ افراد کے اہل خانہ سمیت 28 افراد کو حراست میں لیا گیا تھا جنھیں اب رہا کر دیا گیا ہے۔

سندھ کے صوبائی وزیر شرجیل انعام میمن نے دعویٰ کیاہے کہ کچھ بلوچ مظاہرین کی جانب سے ریڈ زون میں احتجاج کیا گیا اور پولیس نے دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرنے والے چند مظاہرین کو گرفتار کیا۔

اُنھوں نے بتایا کہ تمام افراد کو ضمانتی مچلکوں کے عوض رہا کر دیا گیا ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ مظاہرین سندھ اسمبلی کے اندر جانے کی کوشش کر رہے تھے تاہم انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ احتجاج پرامن تھا اور وہ اسمبلی کے اندر نہیں جانا چاہتے تھے۔

ان مظاہرین کی قیادت آمنہ بلوچ اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی ڈپٹی سیکریٹری سمی بلوچ کر رہی تھیں، جبکہ مظاہرے میں انسانی حقوق کے رہنما پروفیسر ریاض احمد، نغمہ اقتدار اور صحافی فواد حسن بھی شامل تھے۔

آمنہ بلوچ سے جب بی بی سی کی بات ہوئی تو اس وقت وہ پولیس موبائل میں تھیں اور اُنھیں کلفٹن تھانے سے آرٹلری میدان تھانے منتقل کیا جا رہا تھا۔

’ہم پر امن احتجاج کر رہے تھے۔ ہمیں کہا گیا کہ اسمبلی کے سامنے سے ہٹ جاؤ۔ ہم نے انکار کیا جس کے بعد پولیس افسر نے گالیاں دیں اور کہا جاؤ بے غیرتو۔ پولیس نے سمی بلوچ، مہلب بلوچ، نغمہ شیخ سمیت دیگر خواتین پر بھی تشدد کیا جبکہ لڑکوں پر تو جیسے ٹوٹ پڑے۔‘

اُن کا کہنا ہے کہ گذشتہ روز کے احتجاج کے دوران بھی مظاہرین کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں تھیں اور خواتین کو گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی لیکن مزاحمت کے بعد اُنھیں چھوڑ دیا گیا۔

آمنہ نے کہا کہ متعلقہ تھانے کی پولیس کا کہنا تھا کہ ان طالب علموں کو سی ٹی ڈی نے گرفتار کیا ہے۔ چونکہ یہ محکمہ وزیراعلیٰ سندھ کے ماتحت ہے اس لیے ان کی کوشش تھی کہ وہ وزیرِ اعلیٰ یا ان کے کسی نمائندے بات کریں۔

انسانی حقوق کی کارکن اور صحافی رابعہ محمود نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر بتایا تھا کہ صحافی فواد حسن اور عوامی ورکرز پارٹی کے خرم علی کو بھی گرفتار کیا گیا ہے تاہم اب اُن کی بھی رہائی کی اطلاع سامنے آئی ہے۔

ایس ایس پی ساؤتھ اسد رضا نے دعویٰ کیا ہے کہ پولیس نے پیر کو اسمبلی کی عمارت میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے 19 مرد اور 9 خواتین کو حراست میں لیا جب کہ پولیس افسر نے اس بات سے انکار کیا کہ مظاہرین کے ساتھ ناروا سلوک کیا گیا۔

واضع رہے کہ یہ احتجاج،طالب علم دودا بلوچ اور غمشاد بلوچ کی بازیابی کیلئے کیا جارہا تھا جنہیں 7 جون 2022 کو پاکستانی سیکورٹی فورسز نے کراچی سے حراست میں لیکر جبری طور پر لاپتہ کیا تھا۔

Share This Article
Leave a Comment