پاکستانی روپیہ کا زوال جاری ہے۔ڈالر کی قیمت میں اضافہ مسلسل 11ویں روز بھی جاری رہا اور گزشتہ روز 200 روپے کی تاریخی بلندی چھونے کے بعد آج بھی انٹربینک میں اس کی قیمت میں 50 پیسے کا اضافہ ہوا۔
فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان (ایف اے پی) کے مطابق سبز کرنسی صبح 10:45 بجے کے قریب 200.50 روپے میں ٹریڈ ہو رہا تھا۔
گزشتہ منگل سے روپے کی قدر میں مسلسل گراوٹ کی بڑی وجہپاکستان کے بڑھتے ہوئے درآمدی بل، کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں اضافہ اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی ہے۔
اپریل میں درآمدات میں 72 فیصد اضافہ ہوا، جس سے حکومت کے پاس بیرونی توازن کو بہتر کرنے کی کوئی گنجائش نہیں رہی اور 13 مئی کو ختم ہونے والے ہفتے کے دوران اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر مزید 14 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کم ہو کر 10 ارب 16 کروڑ ڈالر رہ گئے۔
ویب پر مبنی مالیاتی ڈیٹا اور تجزیاتی پورٹل میٹیس گلوبل کے مطابق ‘ڈالر کی ذخیرہ اندوزی اور قیاس آرائی پر مبنی عناصر نے جلتی پر تیل چھڑکا ہے’۔
دریں اثنا تجزیہ کاروں نے اسے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کے ساتھ سعودی عرب، چین کی جانب سے فنڈز کے اجرا اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے بیل آؤٹ پیکج کے حوالے سے پیدا ہونے والی غیر یقینی صورتحال کو روکنے کے منصوبوں پر حکومت کی جانب سے واضح نہ ہونے سے بھی جوڑا ہے۔
حکومت اب تک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین کو مدد کے لیے قائل کرنے میں ناکام رہی ہے اور جب کہ آئی ایم ایف کے ساتھ بھی مذاکرات جاری ہیں، انہیں شرح تبادلہ کو مزید خراب ہونے سے بچانے میں کافی وقت لگ سکتا ہے۔
جہاں تک درآمدات کا تعلق ہے، حکومت نے کل ایک ‘ہنگامی’ منصوبے کا اعلان کیا جس کے تحت تقریباً 800 اشیا کی درآمد پر پابندی لگا دی گئی۔
تاہم ایف اے پی کے چیئرپرسن ملک بوستان کے مطابق صرف درآمدات پر پابندی کا اقدام ڈالر کی اڑان کو کم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا اور دوحہ میں آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے اختتام تک روپیہ دباؤ میں رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ ‘حکومت اقدامات کر رہی ہے لیکن سرمایہ کاروں کے اعتماد کی بحالی میں وقت لگے گا۔’