اکثر تاریخ کی کتابوں میں ایسی پُر لطف داستانیں مطالعہ کرنے کو ملتی ہیں کہ انسانیت اور قومی بقاءَ اور گلزمیں کی دفاع کیلئے قوموں نے بے مثال قربانی دیکر اپنی تحاریک کو نئی راہوں پر گامزن کرکے خود کو امر کردیا۔ اپنے آنے والی نسل کو اپنی راہوں کا ہمسفر بنے کا سلیقہ سکھایا۔ تاریخ کے یی بیباک کردار ہمیشہ یہ سکھاتے ریتے ہیں کہ قومی مفادات کی تکمیل کے لیے موت کو مسکراتے مسکراتے گلے لگا کر امر ہونا سیکھو۔
راقم نے اپنی زندگی کے چند پُر مسرت ایام میں ایسے کئی جنازے اور مسخ شدہ لاشیں اپنی کمزور آنکھوں سے دیکھکر مسکراتے ہوئے کندھا دیکر گلزمیں کو سوغات کرچکا ہے ۔جن کے والدین نے اپنی آنکھوں کے آنسوؤں کو آب زمزم سمجھکر پی لیا۔ اس سفر میں میں نے یہ بھی دیکھا کہ بلوچ کی اس جنگ میں بکوچ فرزںدوں نے اپنے معصوم بچوں بوڑھے ماں باپ کو وداع کرکے اس جدوجہد میں ایک مقصد اور تمنا رکھتے ہوئےایسے تاریخ ساز فیصلے کیے۔ انہیں یقین تھا کہ ہمارے لہو کا ہر قطرہ آزادی کی شمع روشن کریگا ۔آج شہداء کے بہتے لہو نے بانک شاری بلوچ کو اسقدر حوصلہ اور ہمت بخشا کہ اپنی پروقار زندگی دو معصوم بچوں کی پرواہ کیے بغیر برمش بن کر مجید بر یگیڈ کے کاروان میں شامل ہوکر بلوچ تاریخ میں ثابت کیا کہ ہماری مائیں بہنوں میں بھی قربانی دینے کی تمنا، جستجو اور خواہش اسی پیمانے پہ ہے جس قدر دھرتی کے نرمزاروں میں۔ ایک ماں جب ایک سرمچار بیٹے کو جنم دےسکتا ہے تو کیا ایک سرمچار بیٹی جنم نہیں دے سکتی اور کیا وہی ماں کیوں خود ایک سرمچار کے روپ و کرداربن تحریک جو دوام نہیں بخش سکتی۔شاری بلوچ نے اپنے انمول کردار سے شہادت کی اُس دہلیز کو عبور کرکے منزل کو نزدیک کردیاہے۔اور ہمیں یہ باور کرایا کہ آپ کی ماوں، بہنوں اور بیٹیوں میں وہ جرات ہمت اور قابلیت موجود ہے جس سے دشمں کو منہ توڑ جواب دیا جاسکے اور یہ پیغام بھی دشمں تک پہنچایا کہ جب ہم گلی گوچوں یاسڑکوں پر آپ سے مقابلہ کرسکتے کیا میدان جنگ میں یا بلوچستان کے پہاڑوں کے دامن میں جنگ نہیں لڑ سکتے ۔نہیں ہم دشمن سے ہر محاذ پر لڑنے کی طاقت اور ہمت رکھتے ہیں۔ اب بانک شہید شاری بلوچ کے لہو نے بلوچستان کے ہر گداں میں شاری پیدا کیئے ہیں۔ اور بانک شہید شاری بلوچ تاریخ کی مورخ بن گئی۔سلام کرتا ہوں اپنی شیرزال بیٹی کی ہمت کو، الفاظ نہیں میرے پاس کہ میں شاری جان کے نام پر کچھ خزینہ الفاظ ندر کروں۔ہاں میں یہ تمنا رکھتا ہوں ۔ کہ جس طرح بانک شہید فدائی شاری بلوچ نے دشمں پر واضح کردیا کہ ہم تمہیں اس دھرتی سے نکال باہر کرکے دم لینگے۔ دشمن ہمیشہ کہا کرتا ہے کہ یہ جاہل بلوچ لوگ ہیں جو پہاڑوں میں گوریلہ جنگ لڑ رہے مگر شاری نے اس بات کو جھوٹ ثابت کر دیا کہ بلوچ گوریلہ ان پڑھ جاہل نہیں ان میں کئی اعلی تعلیم یافتہ بھی ہیں جو اپنی آزادی اور قوم کی بقا گلزمیں کی دفاع کیلئے کمر بستہ ہیں۔
بانک شاری کے اس عمل کے بعد ہم اپنے آپ سےاور تحریک کے کیڈروں سے سوال کرسکتے کہ بانک شاری اور شہیدؤں کا لہو ہم سے کیا تقاضہ کرتی ہیں کہ آج بھی اسی طرح اپنے مفادات ضدوانا اور پسند ناپسند کی لیڈری کی نام پر تحریک کو داؤ پر لگا دیں۔ نہیں شہدا کے لہو کا ہر قطرہ یہی تقاضہ کرتا کہ اتحاد سے اپنیذات کی نفی کرکے منزل کی جانب بڑھنا ہوگا کہ بلوچ قوم کا مستقبل نور مجسم کی طرح ہو اور جلد اپنی آزادی کی منزل پا سکے۔
***