کراچی سے دو بلوچ سمیت 3افراد جبری طور پر لاپتہ

0
278

پاکستان کے صوبہ سندھ کے مرکزی شہر کراچی میں پاکستانی خفیہ اداروں نے دو طالب علموں سمیت 3افرادکو حراست میں لیکر جبری طور پر لاپتہ کردیا ہے۔ جن میں دو بلوچ ہیں ایک طالب علم ہے۔ دوسرا روس سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد واپس کراچی آیا تھا اور روزگار کیلئے پھر سے دوبئی جانے کی تیاری کر رہا تھا جبکہ تیسرا ایک ایم فل کا طالب علم ہے جس کی قومیت کے بارے میں تاحال جانکاری سامنے نہیں آئی ہے۔

جبری گمشدہ کئے گئے افراد میں دونوں بلوچوں کی شناخت سعید عمر بلوچ اور شعیب ولد اعظم خان کے ناموں سے کی گئی جبکہ تیسری کی شناخت ابھی تک ظاہر نہیں کی گئی ہے۔

کراچی سے فورسز نے نوجوان بلوچ طالب علم کو حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کردیا ہے۔

لاپتہ ہونے والے طالب علم کی شناخت شعیب ولد اعظم خان کے نام سے ہوئی ہے۔

ذرائع کے مطابق مذکورہ نوجوان خضدار کے علاقے نال گروک کا رہائشی ہے جو اس وقت کراچی میں زیر تعلیم تھا جنہیں فورسز نے حراست میں لے کر نامعلوم مقام منتقل کردیا ہے۔

اسی طرح گذشتہ روز جمعرات کی صبح کراچی کے علاقے ملیر میں پاکستان ہاوسنگ سوسائٹی قائد آباد میں پاکستان کی خفیہ اداروں نے گھر گھر تلاشی کے دوران سعید عمر نامی ایک بلوچ نوجوان کوان کے بھائی ولید بلوچ کے ساتھ حراست میں لیکرنامعلوم مقام پر لے گئے۔بعد ازاں ولید بلوچ کو چھوڑ دیا گیا جبکہ اس کا بھائی تا حال لاپتہ ہے۔

اہلخانہ کا کہنا ہے کہ ولید بلوچ اور ان کے بھائی کو پولیس اور سول کپڑوں میں اہلکار اٹھا کر لے گئے۔

ولید بلوچ کو کچھ دیر بعد چھوڑ دیا گیا لیکن ان کے بھائی کے بارے میں ان کو کچھ نہیں بتایا گیا اور وہ اب تک لاپتہ ہیں۔

رہاکئے گئے ولید بلوچ کا تعلق بلوچستان کے شہر تربت سے ہے اور وہ پی ٹی وی میں بطور پروڈیوسر ملازم ہیں۔

ولید بلوچ کے مطابق لاپتہ ہونے والے ان کا بھائی سعید عمر پانچ سال قبل تعلیم حاصل کرنے کے لیے روس گیا تھا اور گزشتہ سال ستمبر میں ہی پاکستان واپس آیا تھا۔

’عید کے بعد اس کو ملازمت کی تلاش میں دبئی جانا تھا، جس کے ٹکٹ کے لیے ٹریول ایجنٹ سے رابطے میں بھی تھا۔‘

ولید بلوچ کہتے ہیں کہ ان کا اور ان کے بھائی کا کسی سیاسی تنظیم یا شخصیت سے تعلق نہیں رہا۔ ’اگر سعید کسی سیاسی سرگرمی میں ہوتا تو وہ وہاں سیاسی پناہ بھی لے سکتا تھا۔ اس نے ایسا نہیں کیا۔ اس نے تو حال ہی میں نیا پاسپورٹ اور شناختی کارڈ بنوایا ہے۔‘

ولید بلوچ نے شاہ لطیف تھانے میں درخواست جمع کرانے کے ساتھ چیف جسٹس آف سندھ ہائی کورٹ، آئی جی سندھ پولیس اور ڈی جی رینجرز کو بھی درخواست بھیجی ہے۔

کراچی سے بلوچ نوجوانوں کی گمشدگی کا سلسلہ گزشتہ دو دہائیوں سے جاری ہے جن میں زیادہ تر طالب علم ہیں۔ ان کی جبری گمشدگی کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں بھی آئینی درخواستیں دائر ہیں جہاں ماضی میں قانون نافذ کرنے والے ادارے گمشدگی کے واقعات سے لاعلمی اور لاتعلقی کا اظہار کر چکے ہیں۔

کراچی یونیورسٹی میں خودکش حملے کے بعد سوشل میڈیا پر بعض بلوچ طالب علم پہلے سے ہی اس خدشے کا اظہار کر چکے ہیں کہ ان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

دریں اثنا کہا جارہا ہے کہ کراچی میں خودکش دھماکے میں ملوث سہولت کاروں کیخلاف کارروائی کیلئے خفیہ اداروں نے گزشتہ رات گلشن اقبال کے علاقے میں کارروائی کی جہاں سے ایم فل کے ایک طالب علم کو حراست میں لیا گیا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ حراست میں لیا گیا شخص جامعہ کراچی میں لیکچرزبھی دیتا تھا، ملزم کے زیراستعمال لیپ ٹاپ اور غیرملکی لٹریچر بھی تحویل میں لے لیا گیا ہے۔

ذرائع کے مطابق خفیہ اداروں نے ایف آئی اے سائبر کرائم سے بھی رابطہ کیا جس کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹ سے متعلق مواد بھی ملا ہے۔

تفتیشی ذرائع کا کہنا ہے کہ حملے میں ملوث افراد سوشل میڈیا سے رابطہ کرتے تھے۔

واضح رہے کہ جامعہ کراچی میں 26 اپریل کو بی ایل اے مجید بریگیڈ کی فدائی شاری بلوچ کی جانب سے فدائی حملے میں تین چینی اساتذہ سمیت 4 افراد ہلاک ہوئے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here