برطانیہ اور بھارت نے ’نئی اور توسیع شدہ‘ دفاعی و سیکیورٹی شراکت داری پر اتفاق کرلیا، شراکت داری کا اعلان برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے نئی دہلی کے دورے پر کیا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق بورس جونسن کو دورہ بھارت پر ان کے اپنے ملک کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جبکہ امکان ہے کہ انہیں لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی پر تحقیقات کا بھی سامنا کرنا پڑے گا، جس پر پارلیمنٹ کا ماننا ہے کہ انہوں نے اسکینڈل پر جھوٹ بولا ہے۔
بھارت امریکا، جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ کواڈ گروپنگ کا حصہ ہے جسے چین کے بڑھتے ہوئے جارحیت کے خلاف ایک مضبوط ہتھیار کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
تاہم سرد جنگ میں نئی دہلی کی ماسکو کے ساتھ تعاون کی ایک طویل تاریخ بھی موجود ہے، جو اب بھی اس کا سب سے بڑا فوجی آلات فراہم کنندہ ہے، اس نے یوکرین پر روس کے حملے کی مذمت کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
بورس جانسن نے اپنے بھارتی ہم منصب نریندر مودی کے ساتھ گفتگو میں بیجنگ کے حوالے سے واضح طور پر کہا کہ ’آمرانہ جبر کے خطرات مزید بڑھ گئے ہیں‘۔
بات جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ بہت ضروری ہے کہ ہم اپنے تعاون کو مزید مضبوط کریں،
انہوں نے کہا کہ ’انڈو پیسیفک کو کھلا اور آزاد رکھنا ہماری مشترکہ دلچسپی ہے‘ نئی شراکت داری‘دہائیوں پر مشتمل طویل المدتی‘ ہے۔
انہوں نے قدیم جمہوریتوں برطانیہ اور بھارت کے درمیان تعلقات کو سراہا۔
اس سلسلے میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا کہنا تھا کہ بورس جونسن کا ’تاریخی‘ دورہ بھارت کی آزادی کے 75 سال بعد سامنے آیا۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم نے متعدد علاقائی اور بین الاقوامی پیش رفت پر گفتگو کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ انڈوپیسیفک میں جامع اور قواعد پر مبنی گفتگو کی ضرورت ہے۔
خیال رہے سیکیورٹی شراکت داری کی تفصیلات تاحال موصول نہیں ہوئی ہیں۔
تاہم بورس جونسن کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک دفاعی خریداری کے لیے ساتھ کام کرنے پر متفق ہیں تاکہ زمینی، سمندری، فضائی اور سائبر خطرات سے نمٹا جاسکے۔
اس شراکت داری میں نئے جنگی طیارے، میری ٹائم خطرات کی نشاندہی کرکے ان پر کارروائی کرنے سے متعلق ٹیکنالوجیز شامل ہیں۔
جزوی طور پر ماسکو پر اپنا انحصار کم کرنے اور ’میک ان انڈیا‘ مہم میں شراکت کے طور پر نئی دہلی طویل عرصے سے اپنی ملکی فوجی تیاری کی صلاحیت کو بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔
سفارتی وفد کا ایک سلسلہ حالیہ ہفتوں میں نئی دہلی کا رخ کر رہا ہے کیونکہ امریکا کی قیادت میں ایک اتحاد بھارت کو ماسکو سے دور کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جس میں سیکیورٹی، دفاع اور توانائی میں تعاون بڑھانے کا وعدہ کیا گیا ہے۔
نریندر مودی نے گزشتہ ہفتے امریکی صدر جو بائیڈن سے ٹیلی فون پر بات چیت کی تھی جبکہ یورپی کمیشن کی سربراہ ارسلا وان ڈیر لیین اتوار کو بھارت پہنچیں گی۔
بھارت نے روس کی واضح مذمت کرنے سے انکار کرتے ہوئے تشدد کے خاتمے پر زور دیا ہے، اور ماسکو کی مذمت کرنے والی مغربی حمایت یافتہ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں شرکت سے گریز کیا ہے۔
برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے مودی سے ملاقات کے بعد کہا کہ روس پر بھارت کا مؤقف تبدیل نہیں گا۔
نئی دہلی میں نیوز کانفرنس کے دوران ان کا کہنا تھا کہ ’روس کے بارے میں بھارت کا مؤقف تاریخی طور پر سب کو معلوم ہے، اور ہم اسے تبدیل نہیں کریں گے، یقیناً یہ سچ ہے‘۔
بورس جانسن نے یہ بھی کہا کہ روس کے حملے کے خلاف سخت مزاحمت کی وجہ سے یوکرین میں تنازع کا فوری خاتمہ نہیں ہو سکتا۔
ایک سوال، یہ کیا وہ دفاعی انٹیلی جنس کے جائزوں سے اتفاق کرتے ہیں کہ جنگ سال کے آخر تک جاری رہ سکتی ہے، کے جواب میں برطانوی وزیر اعظم نے کہا کہ ’افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ ایک حقیقت پسندانہ امکان ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے حملے کا حکم دے کر ایک ’تباہ کن غلطی‘ کی ہے، تاہم اس نے یوکرین کی مزاحمت کو خراج تحسین پیش کیا، اور یوکرین اور اس کے پڑوسیوں کے لیے منصوبہ بندی اور ممکنہ فوجی مدد کا خاکہ پیش کیا۔