بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ میں بلوچ جبری لاپتہ افراد اور شہداء کے بھوک ہڑتالی کیمپ جاری ہے جسے آج 4645 دن مکمل ہوگئے۔
خاران سے سیاسی و سماجی کارکنان بیبرگ بلوچ، تنویر بلوچ اور شریف بلوچ نے کیمپ آ کر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
وی بی ایم پی کے رہنما ماما قدیر بلوچ نے وفد سے کہا کہ پاکستانی ریاست جو پوری دنیا کی امن و سکون کے لیے خطرے سے کم نہیں ہے اور بلوچ قوم کی اس طرح دل لرزہ دینے والی قتل عام پر مہذب ممالک اقوام متحدہ کی خاموشی پوری دنیا کے لیے تباہی کا باعث ہوسکتی ہے، وی بی ایم پی اقوام متحدہ سے اپیل کرتی ہے کہ فوری طور پر اپنی بنائی ہوئی قانون کی پاسداری کرتے ہوئے انکوائری ٹیم تشکیل دیں جو ان لاپتہ افراد اور اجتماعی قبروں کا معائنہ کرنے کے ساتھ لاشوں کی اصل تعداد جو ہمارے خدشے کے مطابق ہزاروں کی تعداد میں ہوسکتی ہیں جو کہ کراچی اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ہیں سامنے لایا جائے اور ان انسانیت دشمنوں کو عالمی انصاف کے کٹہرے میں لاکر بلوچ فرزندوں کی بازیابی کے سوال پر سنجیدگی سے غور کریں۔
آج بلوچ قوم کو خدشہ ہے کہ تقریباً 53000 سے زائد لاپتہ فرزند جنہیں ریاست نے اغوا کیا وہ کہی اسی طرح ریاستی بربریت کا شکار نہ ہو اج بلوچ قوم اقوام متحدہ سے قابض کی انسانیت سوز مظالم اور فرزندوں کی جبری گمشدگی ریاستی جبر اجتماعی قاتل عام پر سراپا احتجاج ہیں سوشل میڈیا استعمال کرنے والے تمام مکاتب فکر کے لوگ ریاستی درندگی کو دنیا کے سامنے لانے کے لیے مل کر جد وجہد کریں تاکہ پوری دنیا کو بلوچ قوم پر جاری ریاستی جبر اجتماعی قبروں کے اور جبری طور لاپتہ بلوچوں کے بارے آگاہی دی جا سکے۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ کہی روز سے مشکے،خضدار،اواران، مکران اور دیگر علاقوں میں ریاستی فورسز کی آپریشن بمباری جاری ہے بلوچستان کے مختلف علاقوں سے دو مہینے میں سینکڑوں کے قریب بچوں نوجوانوں کو فورسز نے اغوا کیا سب کو تشدد کا نشانہ بنایا اور شدید زخمی حالت میں بیشتر کو پہنک دیا گیا جب کہ 20 افراد کو لاپتہ کیا گیا جو ابھی تک لاپتہ ہیں اے روز قابض کی جانب سے بلوچ قوم پر ظلم و جبر پر دنیا کو خاموش تماشائی بنے کے بعد اقتدامات کرے۔