گُمنام سپاہی کا فدائین تک کا سفر! | زیردان بلوچ

ایڈمن
ایڈمن
5 Min Read

کہتے ہیں دھرتی ماں خود اپنی حفاظت کی خاطر عظیم و بہادر سپوت جنم دیتی ہے۔ مادر وطن کے انہی ہستیوں میں سے ایک کے بارے لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں، شاہد میں اس کے کردار کے آئینہِ جمال کو پیش کرنے سے قاصر رہوں کیونکہ کچھ کردار اپنے عمل کی وجہ توصیف کے محتاج نہیں ہوتے۔

وہ عظیم المرتبت انسان مُنصب بلوچ ہے جنہوں نے زمین کی بقا اور پہچان و امتیاز کو سمجھ کر قومی آزادی کی خاطر مسلح جدوجہد میں شامل ہو کر ایک مخلص اور گمنام سپاہی کی طرح اپنے فرائض سر انجام دیتا رہا۔ منصب بلوچ شوقِ مہم جوئی سے بالاتر حقیقی انقلابی سپاہی تھے۔

وہ ذاتی نمود و نمائش سے پاک بے غرض انسان تھے، وہ درویشانہ مزاج کا مالک انسان تھا۔ اس بات کا ثبوت اسکے انمول قربانیاں ہیں جنہوں نے بلوچ سرزمین پر ایک تاریخ ساز کردار نبھانے کا فیصلہ کیا، اور عظیم فیصلے پر ڈٹے رہے۔

شہید منصب عرف براہو  بلوچ قومی مزاحمت سے جُڑے اور اپنی سفر کا آغاز بلوچ لبریشن فرنٹ کے پلیٹ فارم سے کرتا ہے، وہ ایک دہائی تک بلوچ لبریشن فرنٹ کا بہادر سپاہی بن کر دشمن کے خلاف کئی محاذوں پر لڑتارہا۔ منصب بلوچ نظریاتی سوچ کے مالک نوجوان تھا انہیں اس بات کا شعور تھا کہ آزادی جیسی نعمت بغیر قربانی سے نہیں مل پاتی اسی لیے ہمہ وقت آزادی کے لیے اپنا لہو بہانے کو تیار تھا۔

منصب بلوچ نے دوران جدوجہد قربانی کے عظیم فلسفے کو سمجھ کر  شہید جنرل اسلم بلوچ کے فلسفے کا ایک جانباز سپاہی بنتا ہے اور شہید فدائین ریحان بلوچ کے نقشِ قدم پر چلنے کی عہد کرتا ہے، اور مجید برگیڈ کا سپاہی بننے کا اعزاز حاصل کرنے کے لئے اپنے شعوری فیصلے پر کاربند اور قابل عمل ریتا ہے اور فدائین نیٹورک کی باقاعدگی سے حصہ بن جاتا ہے۔

قومی بقا اور سرزمین کی دفاع کی خاطر عظیم فیصلہ کرنے والے انسان جرات مندانہ اسلوب کے مالک جہدکار ہوتے ہیں اور فدائین منصب بلوچ اپنی مخلصی اور ایمانداری کی مثال آپ ہے جنہوں نے ایک ایسے راستے کا انتخاب کیا اور انہیں علم تھا جس راستے کا انتخاب کر رہا ہوں اسکی واپسی فقط شہادت کی شکل ہوگی۔

منصب جان اپنے دیگر فدائین سرمچاروں کے ساتھ اپنے مِشن کی طرف روانہ ہوتے ہیں لیکن کسی کو علم و گمان  نہیں ہوتا کہ بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں ایک نہ ختم ہونے والی جنگ کا آغاز ہوا ہے اس میں عظیم ماں کا سپوت منصف بلوچ بھی شامل ہے۔

گوریلہ کی مانگ یہی ہے جتنا متحرک رہیں لیکن کسی کے تصور میں نہ ہوں کہ یہاں کون دشمن پہ کاری ضرب سے وار کر رہا ہے۔
مجید بریگیڈ کے حملوں میں جانبازوں کو سب سے پہلے محتاط انداز میں رہنے کی تلقین کی جاتی ہے اور فدائین سپوت راز داری کو اپنے ہونے والے حملوں کے لیے بطور طاقت سمجھتی ہیں۔  منصب بلوچ قومی آزادی کے نظریہ سے لیس تھے بہادری اور راز داری سے اپنی مشن تک پہنچ جاتے ہیں اور دشمن پر قہر بن کر ٹوٹتا ہے۔

غالبا گیارہ مئی دوہزار انیس کا دن تھا جب بلوچ فدائین منصب بلوچ ، حمل فتح ، اسد بلوچ ، کچکول بلوچ  نے گوادر میں  پرل کونٹینینٹل ہوٹل پر کامیابی سے حملے کئے قابض دشمن کی طاقت کو زیر کر کے کامیابی سے ہوٹل میں داخل ہوتے ہیں اور کئی گھنٹوں تک اپنے قبضے میں رکھتے ہوئے قابض فوج کے متعدد اہلکاروں سمیت چین اور دیگر ملکوں سے آئے سرمایہ کاروں میں بہت ساروں کو مارنے کے ساتھ دستاویزات کو نقصان پہنچاتے ہیں کئی گھنٹوں کی لڑائی کے بعد آخر گولیاں ختم ہونے تک آخری گولی کے فلسفے کو زندہ رکھتے ہوئے شہید ہوتے ہیں۔ شہید فدائین منصب بلوچ اپنے ساتھیوں سمیت عظیم رتبے پہ پہنچ کر بلوچ قومی تاریخ میں امر ہوجاتے ہیں۔

***

Share This Article
Leave a Comment