ہمیں اور ہماری قوم کے فرزندوں کو کیوں اجتماعی سزا دی جارہی ہے، کیا ایک قوم کو اپنے قومی بقاء اور سالمیت کے لیے جدوجہد کرنے کی اجازت نہیں ہے۔؟ ہمیں اپنے قومی بقا کی جدوجہد کی پاداشت میں اجتماعی سزا کے ساتھ ہمارے قوم کے بوڑھوں سے لیکر نومولود بچے بھی قابض ریاست کی اجتماعی سزا سے بچ نہیں پارہے ہیں۔ تشدد کا یہ لہر جو بلوچستان میں دیکھ رہے ہیں اس کی مثال ملنا مشکل ہے اس کے باوجود بھی بلوچ ثابت قدمی سے ان کا مقابلہ کررہے ہیں۔بلوچوں کی یہ ثابت قدمی دیکھ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایک قوم کو اپنے قومی بقاء اور سالمیت کی خاطر کسی آفاقی طاقت کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی طرح مضبوطی کے ساتھ کھڑا ھونا چاہیے یہی ثابت ان کی کامیاب جدوجہد کی دلیل ہے۔
اب بلوچ قوم کے ہر فرزند نے اجتماعی سزا کاٹنے کو قبول کر لیا ہے اور غلامی سے نجات کو اپنا فرض عین سمجھ رہے ہیں تو ہمیں بحثیت ایک زندہ قوم کے طور پر اجتماعی سزائیں منظور ہیں لیکن قابض ریاست پاکستان کی غلامی منظور نہیں ہے۔
دنیا کی تاریخ کو پڑھیں قوموں نے اپنی قومی بقاء اور سالمیت سمیت سرزمین کی انچ انچ کے لیے اپنے سر کٹوائے ہیں لیکن غلامی کے خلاف لڑنے سے دستبردار نہیں ہوئے۔ اور جن اقوام نے خوف کو اپنا وطیرہ بنایا وہ مٹتے گئے۔
قومی بقاء اور آزادی کے لیے جدوجہد کرنا قوموں کی بقاء کا ضامن ھوتا ہے۔ اسی طرح گزشتہ 74 سالوں سے بلوچ قوم اپنے قومی بقاء اور سالمیت سمیت قومی آذادی کی خاطر قابض کی قبضہ گیری کے خلاف لڑتے آرہے ہیں ان سات دہائیوں کے دورانیہ میں بلوچ قوم کے ہزاروں فرزندوں نے ایک آزاد اور خود مختار بلوچ ریاست کو وجود میں لانے کے لیے بیش و بہا قربانیاں دی ہیں اور قربانیوں کا یہ سلسلہ ہنوزجاری ہے و ساری ہے۔
حالیہ چند سالوں سے قبضہ گیر ریاست مختلف مکروفریب کے ساتھ مقبوضہ بلوچستان کے طول و ارض میں بہت سرگرم ہے لیکن ان گزشتہ چند سالوں کے اس پر آشوب دور میں پاکستان فوجی جارحیت کے باوجود بلوچ جہدکاروں نے جنگی مشن میں قابض ریاستی فورسز کو شکست دیتے چلے آرہے ہیں۔
دوہزار پندرہ سے نیشنل ایکشن پلان اور ضرب عضب نامی طویل فوجی آپریشن کے باوجود بلوچ جدوجہد مزید تیز اور توانا رہا تو صوبائی اور وفاقی ایوانوں سمیت عسکری قیادت کی تبدیلی روز کا معمول بن چکا ہے لیکن اب تک ریاست کے تمام مکروفریب ناکام ھوچکے ہیں۔ روان مہینے دو بارہ صوبائی کابنیہ سمیت تمام عسکری ادارے ایک بار پھر نیشنل ایکشن پلان (نیکٹا)پر ازسر نو عمل پیرا ھونے کی منصوبہ بنارہے ہیں لیکن درج بالا تمام حکمت عملیوں کے باوجود سیاسی وعسکری قیادت کی ہر دن مقبوضہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں فوجی کیمپوں میں تربیتی پروگرام سمیت فورسز کی دل جوئی میں وقت ضیاع کرنے کے علاوہ کوئی خاص کامیابی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ روزانہ فورسز کے بھاگنے اور اپنے کیمپوں سے فرار ھونے کی رپورٹ سوشل میڈیا کی زینت بن رہے ہیں لیکن عسکری حکام میڈیا میں جھوٹے دعووں کے سہارے اپنے عسکری اداروں کو بچانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اب پوری دنیا کو معلوم ہوچکا ہے کہ پاکستانی عسکری اداروں کے دعوؤں میں کتنی صداقت ہے۔
بلوچ نسل کشی میں پاکستانی عسکری اداروں سمیت ان کے اتحادی چین اور ترکی بہت اہم رول ادا کررہے ہیں حالیہ چند مہینوں میں بلوچ آزادی پسند گوریلہ جنگجوں کے کامیاب حملوں کے بعد ریاستی فورسز کے اندر ایک خوف کا ماحول پیدا ہوچکا ہے جو اپنے فوجی بیرکوں میں بیٹھنے کی سکت تک کھو چکے ہیں اور اسی طرح پاکستانی وزیراعظم سمیت عسکری ادارے بیرونی دنیا میں اپنے اتحادیوں کے ہاں فنڈز مانگنے سمیت جنگی سازوسامان جدید دور کے ڈرون طیاروں کی خریدوفروخت اور دیگر جدید ٹرسسنگ سسٹم کے آلے بھی منگوائے ہیں روان ماہ دو مرتبہ پاکستانی فورسز نے اپنے اتحادی ترکی کی ایجاد کردہ ٹرسسنگ میشن اور ڈورن طیارے کی مدد سے بلوچ جہدکاروں حملے کا آغا کیا ہے۔ جن میں بلوچ قوم کے بیس کے قریب سرمچار شہید ہوگئے۔
میں سمجھتا ہوں کہ ریاست جتنا جبر کرے گا تحریک اتنی ہی شدت کے ساتھ ابھرے گی اور قابض کی اس نئی حکمت عملی کے بعد بلوچ جدوجہد کو مزید تحریک ملے گی جس کے بعد ریاست جو اپنے آخری ازمارہی ہے اس کے پاس مزید کو چارا نہیں ہوگا ما سوائے پسپائی و رسوائی۔
٭٭٭