انسانی حقوق کی نو عالمی تنظیموں نے افغانستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی نگرانی اور طالبان حکومت کی جواب دہی کے لیے اتحاد قائم کیا ہے۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے حال ہی میں جاری کیے گئے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اس نئے اتحاد کا مقصد افغانستان میں انسانی حقوق کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال، خواتین کے حقوق کے تحفظ اور وہاں کی حکومت کو جواب دہ ٹھہرانے کے لیے قائم کیا گیا ہے۔
اتحاد میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کے علاوہ انسانی حقوق کی دیگر تنظیمیں فرنٹ لائن ڈیفنڈرز، فریڈم ہاؤس، فریڈم ناؤ، ہیومن رائٹس واچ، ایم اے ڈی آر ای، تشدد کے خلاف عالمی تنظیم او ایم سی ٹی، بین الااقوامی فیڈریشن فار ہیومین رائٹس اور ایف آئی ڈی ایچ شامل ہیں۔
اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ 15 اگست کو طالبان اقتدار کے بعد افغانستان میں انسانی حقوق کی صورتِ حال مزید ابتر ہوئی ہے۔ ملک میں لڑائی ختم ہوچکی ہے لیکن انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں بدستور جاری ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ طالبان نے بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ارتکاب کیا ہے جن میں ماورائے عدالت پھانسیاں، جبری گمشدگیاں، تشدد اور من مانی نظربندیاں شامل ہیں۔
عالمی تنظیم کے مطابق طالبان کے دور میں خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کی بھی بڑے پیمانے پر خلاف ورزی، سنسر شپ اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے خلاف انتقانی کارروائیاں جاری ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی علاقائی کمپینر سیمرا حمیدی کہتی ہیں کہ افغانستان میں لوگ طالبان کی زیاتیوں اور انسانی تباہی کے درمیان پھنس کر رہ گئے ہیں۔ بین الااقوامی برادری ان کے لیے اب بھی بہت کچھ کر سکتی ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق اس اتحاد کا مقصد افٖغانستان میں انسانی حقوق کی تمام خلاف ورزیوں کا احتساب کرنے کے لیے مشترکہ طور پر کام کرنا اور اجتماعی طور پر طالبان پر دباؤ ڈالنا ہے کہ وہ انسانی حقوق کا احترام کرے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ افغانستان میں انسانی حقوق کے قیام سے ہم افغانستان کے لوگوں کو یکجہتی کا پیغام دینا چاہتے ہیں۔ ہم طالبان اور عالمی برادری کو بھی یہ بتانا چاہتے ہیں کہ بین الااقوامی سول سائٹی کی تنظمیں وہاں کی صورتِ حال پر گہری نظررکھے ہوئے ہے۔
انسانی حقوق کے افغان سرگرم کارکنوں نے طالبان کے زیر انتظام افغانستان میں انسانی حقوق کی نگرانی کے لیے حقوق کی عالمی تنظیموں کے اس اتحاد کا خیر مقدم کیا ہے۔
افغانستان سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کیسرگرم کارکن برہان الدین سیرت کا کہنا ہے اس اتحاد کے قیام سے طالبان حکومت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی روک تھام کے لیے ضروری اقدامات پر مجبور ہو گی۔
وائس آف امریکہ کی ‘دیوا’ سروس سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ انسانی حقوق کی تنظیموں کی رپورٹس افغان معاشرے میں بہت زیادہ مو?ثر سمجھتی جاتی ہیں۔
اُن کے بقول ایسی تنظیموں کی ایک بھی رپورٹ طالبان حکومت پر بہت زیادہ دباوؤ ڈال سکتی ہے کہ وہ مجبور ہو کر ان مسائل کو حل کرنے کی طرف توجہ دیں۔
افغانستان میں ”ولسی سیاسی جرگہ” کے بانی سیاسی تجزیہ کار صدیق منصور کا کہنا ہے کہ گزشتہ برسوں میں جو ظلم ہوا ہے، ان میں ملوث افرا د کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی ضرورت ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کے اتحاد پر ردِعمل دیتے ہوئے ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد نے کا کہنا تھا کہ اس نوعیت کے اتحاد لوگوں کے تحفظ کے لیے نہیں بلکہ سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ہو تے ہیں۔
طالبان ماضی میں بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات رد کرتے ہوئے دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ افغانستان میں اُن کے آنے کے بعد ملک میں حالات بہتر ہو رہے ہیں۔
البتہ امریکہ اور مغربی ممالک کا یہ گلہ رہا ہے کہ طالبان 2020 میں طے پانے والے امن معاہدے پر عمل نہیں کر رہے اور نہ ہی اُنہوں نے ملک میں تمام فریقوں کی نمائندگی پر مشتمل حکومت کا قیام ممکن بنایا ہے۔