( ماہنامہ سنگر اداریہ )
گزشتہ دو سالوں سے مسلح محاذ پر سرگرم بلوچ آزادی پسند تنظیموں کے حملوں میں قدرے کمی دیکھنے کو ملی، لیکن پچھلے چند مہینوں سے ان حملوں میں نہ صرف تیزی بلکہ مختلف محاذ پہ بڑے حملے دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ ان حملوں میں ریاستی فورسز کی حواس باختگی دیکھنے کے قابل ہے۔ ان شدید حملوں میں ہم ذکر کریں گے ماہ جنوری میں مکران کے علاقے ”سبدان کہیر کور“ میں بلوچستان لبریشن فرنٹ کی جانب سے کیا گیا حملہ جس میں قبضہ گیر ریاست پاکستان کے ریگولر آرمی کے سترہ (17)فوجی ہلاک ہوئے جبکہ ان کا ایک ہی سپاہی بلوچ آزادی پسندوں کے حملوں سے جان بچا کر بھاگنے میں کامیاب ہوا۔
بلوچستان لبریشن فرنٹ(BLF)کا یہ حملہ 25جنوری کی شام مقامی وقت کے مطابق 6:00ہوا۔ اس حملے کی شدت کا اندازہ ہم اس بات سے لگا سکتے ہیں کمک پہنچنے سے قبل آرمی کیمپ میں موجود14میں سے تیرہ(13)عسکری اہلکار ہلاک ہوگئے اور ان کی مدد کے لیے پہنچنے والوں کو راستے میں بلوچ سرمچاروں نے آڑھے ہاتھوں لیا اور مدد کے لیے آنے دو موٹر سائیکلوں پہ سوار چار(4)اہلکار سرمچاروں کے حملوں کی زد میں آکر ہلاک ہوگئے اور یوں ہلاک ہونے والوں کی تعداد سترہ(17)تک جا پہنچی۔
قبضہ گیر ریاست پاکستان کے آرمی کے اہلکاروں کو ہلاک کرنے کے بعد بلوچستان لبریشن فرنٹ کے سرمچاروں نے وہاں موجود تمام اسلحہ کو قبضہ میں لے کر وہاں قائم آرمی کیمپ کو نظر آتش کردیا۔
بلوچستان لبریشن فرنٹ کے اس کامیاب حملے نے پوری ریاستی مشینری کو حواس باختہ کیا۔ اور دو، تین دنوں تک ریاستی میڈیا مختلف جواز بناکر حملے کو پیش کرتا رہا۔بالخصوص ریاستی میڈیا میں اس بات پہ زور دیا جارہا تھا کہ یہ حملہ ایران میں بلوچوں کی موجودگی کی وجہ سے ہوا کیوں کہ یہ علاقہ ایرانی بارڈر سے نزدیک پڑتا ہے۔قابض ریاستی تجزیہ نگاروں اور ان کے گماشتوں کی کم علمی پہ ہنسی آتی ہے، جہاں وہ اپنے کٹھ پتلی وزیراعظم کی طرح جغرافیہ کے علم سے مکمل نابلد ہیں۔ دراصل حملے کی زد میں آنے والا علاقہ ایرانی سرحد سے 181کلومیٹر کے فاصلے پہ واقع ہے اور ایک دشورا گزار علاقے میں یہ فاصلہ طے کرنا آسان نہیں اور وہ بھی اس صورت میں جب واپسی پہ ایک آزادی پسند دوست کی میت بھی دوستوں کے کندھوں پہ ہو۔
قابض ریاستی میڈیا اور ایوانوں میں اس حملے پہ بحث و مباحثوں کا سلسلہ اپنی جگہ جو شدت کے ساتھ پیش کیا جاتا رہا، اس کے علاوہ قابض پاکستان آرمی کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کو مکران آنے پہ بھی مجبور ہونا پڑا۔ وہ یقیناً اس شدید حملے سے حیران و پریشان ہوگا۔ جنگی اصول یہ ہے کہ کوئی ٹھکانہ بنانے سے قبل اس کی حفاظت کو یقینی بنایا جاتا ہے جس میں سب سے اہم نقطہ جغرافیہ ہوتا ہے۔ قابض فورسز نے بھی اس علاقے کو محفوظ و مامون تصور کرکے یہاں فوجی کیمپ قائم کیا تھا۔ لیکن گزشتہ بیس برس کے حملوں کی طرح حالیہ حملے نے اس حقیقت کو مزید تقویت دی ہے کہ مقامی افراد کے لیے ایسے علاقوں پہ حملہ چنداں مشکل نہیں کیوں وہ آنے جانے والے راستوں کا تعین سہل انداز سے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور یہی صلاحیت گوریلہ دستوں کو دشمن پہ برتری دلانے کا سبب بنتا ہے۔
حاالیہ تحریک آزادی میں اس سے بھی شدید حملے قابض ریاستی فورسز پہ ہوئے ہیں لیکن اس حملے کے بعد جس طرح واویلہ مچایا جارہا ہے۔اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ نشانہ بننے والے فوجی اہلکار خصوصی نوعیت کے تھے یا پھر قابض ریاست مکمل شکست کے دھانے پہ پہنچ چکا ہے۔ الغرض جوبھی ہے پر قابض کی حواس باختگی سے ان کی شکست اور بلوچ قومی کی جانب سے سوشل میڈیا پہ ہونے والے مباحثوں اور تصاویر کے تبادلے سے ان کے بلند ہوتے حوصلوں کا اندازہ لگا یا جاسکتا ہے۔