امریکی صدر جو بائیڈن کی طرف سے افغانستان کے امریکا میں منجمد سات بلین ڈالرز کی رقم میں سے نصف نائن الیون حملوں کے متاثرین کو دینے کے فیصلے پر افغان شہری سراپا احتجاج ہیں۔
افغانستان کے دارالحکومت کابل میں افغان شہریوں نے امریکی صدر جو بائیڈن کے اس فیصلے کے خلاف احتجاج کیا ہے جس کے مطابق افغانستان کے امریکا میں منجمد سات بلین ڈالرز میں سے نصف نائن الیون حملوں کے متاثرین کو دینے کا کہا گیا ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے جمعہ 11 فروری کو ایک صدارتی حکم نامے پر دستخط کیے تھے جس کے مطابق افغانستان کے امریکا میں منجمد فنڈر میں سے نصفافغانستان میں انسانی ہمدردی کے کاموں کے لیے خرچ کرنے اور نصف رقم نائن الیون دہشت گردانہ حملوں میں متاثر ہونے والوں میں تقسیم کی جائے گی۔ امریکا میں افغانستان میں منجمد اثاثوں کی مالیت سات بلین امریکی ڈالرز سے زائد ہے۔
امریکی صدر کے اس فیصلے پر افغانستان کے سابق سیاستدانوں عوام، اکیڈمکس اور طالبان نے شدید برہمی کا اظہار کیا ہے۔ طالبان کے سینیئر ترجمان محمد نعیم وردک نے اپنے ٹوئیٹر پیغام میں لکھا، ”امریکی صدر کی طرف سے افغان قوم کی منجمد شدہ رقم کی چوری اور قرقی، ایک ملک اور ایک قوم کی اخلاقی زوال کی پست ترین سطح۔“
افغان عوام ان دنوں شدید معاشی مشکلات کا شکار ہیں۔
سوشل میڈیا پر بہت سے افغانوں نے لکھا کہ امریکی صدر جو بائیڈن مشکلات میں گھرے افغان شہریوں کا پیسہ چُرا رہے ہیں اور یہ کہ اس عمل کا امریکا میں دہشت گردی سے کسی طرح کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
یہ بات اہم ہے کہ 11 ستمبر 2001ء کو امریکی شہر نیویارک میں واقع ورلڈ ٹریڈ سنٹر کو مسافر طیاروں کے ذریعے نشانہ بنانے والوں میں کوئی ایک بھی افغان باشندہ شامل نہیں تھا۔ ان حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے والی دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے بانی سربراہ اسامہ بن لادن کو بھی پاکستان میں 2011ء میں کی جانے والی ایک امریکی کارروائی میں مارا گیا تھا۔
ماہرین کا دعویٰ ہے کہ ہے امریکی صدر جوبائیڈن کی طرف سے منجمد شدہ اثاثوں کی اس طرح تقسیم افغان معیشت کے لیے ایک ناقابل تلافی نقصان ہو گا۔
افغان پالیسی کے تجزیہ کار اور محقق محسن امین کی طرف سے ایک ٹوئیٹر پیغام میں لکھا گیا، ”یہ افغان شہریوں کو ان کی اپنی ہی رقم انسانی مدد کے نام پر دی جانا ہے جبکہ ان کی معیشت کا گلا گھونٹا جا رہا ہے۔“