وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز (وی بی ایم پی) کے جنرل سیکرٹری سمی بلوچ نے کوئٹہ پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نوشکی اور پنجگور واقعے کے بعد طلبا سمیت عام سویلین کو جس طرح سے زیر عتاب لا کر جبر اً لاپتہ کیا جارہا ہے وہ انتہائی تشویشناک ہے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ دنوں سے اب تک بلوچستان کے مختلف علاقوں سے جس تیزی کے ساتھ فورسز نے بلوچ طلبا کو گرفتاری کے بعد لاپتہ کردیا ہے جس سے نت نئے تشویش ابھر کر سامنے آرہے ہیں۔لیکن سب سے پہلے آپکی توجہ پنجگور سے تعلق رکھنے والے اسلام آباد اسلامک یونیورسٹی کے طالب علم احتشام بلوچ جو چھٹیوں کی غرض سے اپنے آبائی گاوں آیا تھا اسے تین فروری کو پنجگور بازار سے اٹھا کر گرفتار کرنے کے بعد اسی سن لاش مسخ کرکے پھینک دی گئی تھی جبکہ ایک اور نوجوان پنجگور سے کی تعلق رکھنے والے ذہنی طور پر مفلوج ندیم ابدال کو گرفتار کرکے گولیاں مار کر لاش پھینک دی گئی تھی۔
اسی طرح پنجگور سے دو سو کلو میٹر دور تجابان سے ایک نوجوان طالب علم الطاف جاڑا کو 3 فروری کو جبری لاپتہ کرکے 4 فروری کو اسکی لاش ویرانے میں پھینک دی گئی تھی۔جبکہ پنجگور سے 6 فروری کو سماجی کارکن اور بزنس مین ملک میران بلوچ سمیت رجب دل مراد، باسط حسن شبیر حاجی کریم اور جبکہ پنجگور سے 9 فروری کو مسرور عارف کو گرمکان پنجگور یحی اور رئیس کو گرفتار کرنے کے بعد لاپتہ کردیا گیا تھا جو تاحال لاپتہ ہیں۔
سمی بلوچ نے کہاکہ جبری گمشدگیوں کے سلسلہ کو تربت میں پھیلا کر 9 اور 8 فروری کو متعدد افراد کو لاپتہ کیا گیا تھا جن میں نزیر رحمت، نظام نوروز رازق بلوچ شامل ہیں۔اسی دوران نوشکی سے 6 فروری جو وحید بلوچ، سمعی بلوچ فرید عاصم جو سیکورٹی فورسز نے گرفتاری کے بعد جبری طور پر لاپتہ کردیا ہے۔جبکہ اسی اثنا قائد اعظم یونیورسٹی کے طالب علم حفیظ بلوچ جو فزکس میں ایم فل کررہے تھے چھٹیوں میں اپنے گاؤں خضدار آئے تھے انھیں لاپتہ کردیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ہارون اور ندیم نامی دو طالب علموں کوئٹہ سے جبری طور پر 7 فروری کو لاپتہ کردیا گیا ہے۔جبکہ مول جان ولد دربیش کریم داد ولد محمد عمر یاسین ولد میاں صمد پھٹان ولد کہدہ اللہ بخش جبکہ دو بھائیوں شبیر جان اور امان اللہ کو بھی ایک ساتھ 8 فروری کو لاپتہ کردیا گیا ہے۔
اسی طرح گیشکور سے صمد ولد سخی تعداد اپنے بیٹے کے ساتھ 8 فروری کو گرفتاری کے بعد تاحال لاپتہ ہیں۔جبکہ محمد خان دھنی بخش بگٹی ڈیرہ مراد جمالی سے پانچ فروری کو جبری گمشدگی کا شکار ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعظیم پاکستان نے وائس فار بلوچ مِسنگ پرسن کے وفد کو یقین دلایا تھا کہ تمام لاپتہ افراد کو جد از جلد بازیاب کیا جائے گا انکی بازیابی اپنی جگہ مگر اس تعداد میں چند دنوں کے دوران جس طرح سے بلوچستان کے طول عرض میں لوگوں کو لاپتہ کیا گیا ہے وہ مزید لاپتہ افراد کے حوالے سے ایک اور بحران پیدا کررئے گی۔
سمی بلوچ نے کہا کہ ہم متعلقہ اداروں کو اس ملک کی مقتدرہ سے اپیل کرتے ہیں کہ تمام لاپتہ افراد جو منظر عام پر لایا جائے اگر کسی نے کوئی جرم جا ارتکاب کیا ہے تو انہیں عدالتوں کے ذریعے قرار واقعی سزا دیں اس طرح لوگوں کو لاپتہ کرکے لواحقین کو اذیت نہ دیں۔
انہوں نے کہا کہ مِسنگ پرسن کا مسئلہ ایک دیرینہ مسئلہ ہے ابھی تک ملکی ادارے اس مسئلے کی حساسیت سے بے خبر ہیں۔گزشتہ دنوں نوشکی اور پنجگور واقعے کے بعد غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق صرف نوشکی سے سو سے زیادہ افراد لاپتہ کیے گئے ہیں جن میں کثیر تعداد نوجوانوں کی شامل ہے۔جبکہ حکومتی اداروں کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ ایک بل تک لاپتہ افراد کے لیے سینٹ سے اب تک پاس نہیں کروا سکے۔
سمی بلوچ نے کہا کہ اگر کسی کو لگتا کے کہ لوگوں کو جبری گمشدہ کرنا ہی بلوچستان ہی مسئلے کو حل کرنا ہے تو انھیں یاد دلانا چاہتے ہیں کہ مِسنگ پرسن کا مسئلہ بلوچستان کے مسائل میں ایک اہم مسئلہ ہے۔اور جتنی دیر اس مسلے کو حل کرنے میں لگایا جائے گا بلوچستان کے دیگر مسائل بھی جوں کہ توں رہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ عام شہریوں کے خلاف طاقت کا استعمال اور انکی جبری گمشدگیاں بلوچستان کے مسائل کو مزید گھمبیر کرتا جارہا ہے۔
سمی بلوچ نے کہا کہ اس پریس کانفرنس کے توسعت سے ہم حکومت وقت ملکی قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ گزشتہ دنوں جتنے لوگ لاپتہ کردئیے گئے ہیں انھیں فوری طور پر بازیاب کیا جائے اور پہلے سے گمشدہ افراد کی بازیابی بھی یقینی بنایاجائے۔