دو 2 فروری اور ہم | واھگ رحیم

ایڈمن
ایڈمن
9 Min Read

جب میں چھوٹی تھی تو میری دادی اماں مجھے اکثر قصے سنایا کرتی تھی۔ ایک دن ایک ایسا قصہ سنایا جس کی حقیقت دو فروری کی رات کو مجھ پہ عیاں ہوئی۔ وہ قصہ کچھ ایسا تھا کہ ایک بادشاہ اور اس کی بیگم بالکونی میں بیٹھ کر بارش کا نظارہ کر رہے تھے کہ اچانک ان کے کانوں میں کسی کی کے پاؤں کی میں آہٹ سنائی دی۔ ایسے میں بادشاہ کی بیگم نے کہا کہ یہ کون پاگل ہے جو اس طرح تیز بارش میں باہر چل رہا ہےاس وقت تو کسی چھتری یا کہ ایسی کوئی چیز نہ تھی جس سے وہ خود کو بارش سے بچا سکتا ایسے میں تو صرف گھر میں ہی بیٹھ کر خود کو بارش سے بچایا جا سکتا تھا۔ تو بادشاہ نے مسکراہ کر جواب دیا کہ بیگم یہ ایک سپائی ہوگا جو اپنی ڈیوٹی پر ہے، جسے نہ بارش کی پرواہ ہوگی نہ طوفان کی نہ آندھی کی وہ باخبر ہوکر بھی ان طوفاںوں سے بےخبر ہوگا جسے بس اپنی ڈیوٹی کوہر حال میں نبھاناہے اور وی فقط اپنی ڈیوٹی اور اس کے اصولوں کا پاسدار ہوگا۔

دو فروری کی رات مجھے دادی ماں کی وہ کہانی یاد آئی تو میں سوچ رہی تھی کہ وہ ڈیوٹی والا شخص محض اپنی ڈیوٹی نبھا رہا تھا اسےتو اپنی ڈیوٹی نبھانے کی ضرور تنخواہ بھی ملتی ہوگی اور شاہد اسی لیے وہ اپنی ڈیوٹی کو بڑی زمہ داری سے نبھارہاتھا۔ ایسے میں مجھے میرے وطن کے بے باک سپائی( سرمچاروں) کا خیال آیا کہ میرے وطن زادے تو بغیر کسی تنخواہ کے بغیر کسی معاوضہ کےاپنی ڈیوٹی(فرض) نبھارہے ہیں ان کو کیا ملتا ہوگا؟ وہ بھی کسی موسم کی پروا کئے بغیر اپنی ڈیوٹی نبھا رہے ہیں۔ وہ تو سردی، گرمی، طوفان، بارش اور برفباری ہر حال میں اپنی ڈیوٹی نبھاتے آرہے ہیں۔ وہ تو کئی کئی دنوں ہفتوں تک بھوکا پیاسہ رہ کر اپنی ڈیوٹی سرانجام دیتے ہیں۔
یہی سب میں سوچ ہی رہی تھی تو اچانک سے میرے مجھے زور دار دھماکوں کی آوازیں سنائی دی، پتہ چلا پہاڑوں کے بےباک شیر دشمن پر قہر برسانے آگئے ہیں۔ وہ وطن زادے اپنے وطن کے عشق میں دیوانوں کی طرح اپنے سروں پر کفن باندھ کر دشمن کی موت بن کر میدان میں اتر گئے ہیں۔

جی یہ دو فروری کی ہی رات تھی، جب ہم بلوچ اپنے گھروں میں بیٹھے اور ہماری حفاظت میں ہمارے آنے والے کل کو محفوظ بنانے کے لیے ہمارے وطن زادے اپنے آج کو فناہ کرنے کے لیے دشمن کے سامنے روبرو اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہے تھے۔ رات کے ساڑھے آٹھ بج رہے تھے اب تک مجید بریگیڈ کے فدائین اپنی گرفت مضبوط کرکے دشمن کو دو مختلف جگہوں سے گھیر کر ان کے ظلموں کی الٹی گنتی انہیں گِنوا رہے تھے۔

دو فروری سے پہلے بھی وطن کے ہزاروں فدائین اپنے وطن کی بقا کےلیے خود کو فناہ کرچکے ہیں۔
دو فروری کی جنگ میں بیک وقت نوشکی اور بنجگور  کے ایف سی ایڈ کواٹرز پر بلوچ فدائین نے بہادری سے حملہ کر کےدشمن کے مرکز پر مضبوطی سے اپنا قبضہ جما دیا۔ نوشکی کے مرکز میں  بیس گھنٹے تک کامیابی سے نو فدائین نے سو سے زائد دشمن فوجیوں کو جہنم رسید کر کے بلوچ تاریخ میں ہمیشہ کےلیے امرہوگئے۔ جب کہ پنجگور میں بلوچ فدائیں کی جنگ آج تیسرے روز تک کامیابی کے ساتھ جاری ہے۔

بلوچ جنگ آزادی کی تاریخ میں ہر وقت بلوچ فرزند  اپنی بقاء کی جنگ میں اور بلوچستان پر دشمن کی قبضے کے خلاف اپنی جان قربان کرنےلیے پیش پیش رہے ہیں۔ ہمیں اپنے وطن زادوں کی قربانیوں کی قدر کرنی ہے۔ انکی قربانی کے مقصد کو اپنا مقدر بناکر اس مقصد کو منزل تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کرناہوگا۔

آج تین دن سے چند بلوچ فدائین نے بہادری سے سات لاکھ فوج کی ہوائیاں اڑائے رکھی ہیں۔ ہمارے لیے فقط یہ تین دن ہے لیکن ان تین دنوں میں بغیر آرام کئے بغیر سوئے ہمارے وطن زادے ہماری بقاء کےلیے دشمن پر قہر برسارہے ہیں۔ آج وہ جس مقصد کے لیے اپنی سانس اپنی جان قربان کررہے ہیں وہ مقصد ہمارے لیے ایک چیلینج ہے کہ کیا ہم اس مقصد کےلیے ایسے ہی خود کو قربان کر سکتے ہیں ؟ کیا وہ مقصد صرف یہی ہےکہ اپنے وطن زادوں کی شہادت پر ان کو خراج ِ تحسین پیش کریں؟ نہیں ہمارا مقصد ہمارے شہیدوں ہمارے وطن زادوں کا وہ مشن ہے جس کے لیے آج وہ اپنی ایک ایک سانس قربان کر رہے ہیں۔وہ مشن بلوچستان کی آزادی ہے، اس وطن کی آزادی ہے جس نے ایسے سپوتوں کو جنم دیا کہ آج وہ مسکراتے، ہنستے اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار ہیں۔ یہ بہادری یہ بےباکی یہ تربیت ہمیں ہماری اسی سرزمین نے دی ہے جو آج دشمن کے قبضے خون آلود ہے۔

ہم یہ ماننے سے کیوں انکاری ہیں کہ دشمن کو ہم اپنی طاقت سے ہی شکست دے سکتے ہیں۔ آج اگر دنیا مین جتنی بھی قوم ہیں وہ اپنی زمین پر آزاد اور پرسکون زندگی گزار رہے ہیں تو ان کی تاریخ میں ان کی قربانیاں پڑھنے کو ملتی ہیں جنہوں نے محکم اور متحد ہوکر اپنے دشمن کو شکست دی۔

ہمیں یہ بات ماننا ہوگا کہ طاقت کا جواب ہم طاقت سے ہی دے سکتے ہیں۔اور بلوچ کی طاقت اس کی متحد عوام میں ہے۔ دشمن ریاست پاکستان نے بلوچوں پر ہر طرح کے طریقے آزماء کر بلوچ کو یرغمال کیا۔ آج بلوچستان میں ایسا کوئی گھر نہیں جس میں کوئی بھی بلوچ پاکستان کے دہشت گردی یااس کی وحشت کا شکار نہ ہو۔ آج جتنے بھی بلوچ سیاسی کارکن، بلوچ طالب علم، یاکہ عام بلوچ سب پاکستان کی دہشت کے آڑ آچکے ہیں۔ یہ ریاست ہم میں سے کسی بھی بلوچ کو سکون کی سانس لینے نہیں دے گی تو بھلا ہم کس چیز کےانتظار میں بیٹھے اپنے باری کا انتظار کر رہے ہیں؟ ہمیں اب تک اس بات کا ادراک ہوجانا چاہیے کہ یہ قومی جنگ ہے یہ ہمارے وجود کی جنگ ہے،یہ ہماری شناخت کی جنگ ہے، یہ بلوچ کی جنگ ہے، یہ ہماری زمین کی جنگ ہے اس جنگ میں ہمیں ہمارے وجود سراٹھانے والی خواہشات کو دفع کرنا ہے، اس جنگ میں ہمیں اپنی بساط کے مطابق اپنا کردار ادا کرناہوگا، اس جنگ میں ہمیں خاموش رہ کر محض تماشائی نہیں بننا ہمیں اس جنگ میں اپنا حصہ ڈال کرخود کو بلوچ تاریخ میں ہمیشہ کے لیے زندہ رکھنا ہوگا۔ جس زندگی میں اگر وجود مردہ ہے تو اس مردہ وجود سے ہم صرف خود کو زندہ تو کہلوا سکتے ہیں لیکن اصل زندگی سے محروم ہوکر غلامی کی زنجیروں کو مزید مضبوط کریں گے۔ ہماری اصل زندگی تو صرف بلوچ کی آزاد سرزمین پر ہی ہمیں نصیب ہوگی۔ جس کےلیے ابھی ہمیں میلوں کا سفرطے کرناہےاور اس سفر میں ہمیں متحد،محکم اور ہم قدم ہوکراپنے  سفر کو منزل کی طرف لےجاناہوگا۔

Share This Article
Leave a Comment