سب سے پہلے ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے دشت سبدان کہیر کور مقبوضہ بلوچستان کے کس علاقے میں واقع ہے اور اس کے حدود کہاں تک جاملتے ہیں۔ بلوچستان وسیع عریض رقبے پہ پھیلا ہوا خطہ ہے جس کی آباد دیگر ایشائی ملکوں کے مقابلے میں قدرے کم بھی ہے البتہ تجزیہ نگاروں کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ بلوچ قوم کی کل آبادی لگ بھگ چارکروڑ ہے جن کی اکثریت بلوچستان کے علاوہ سندھ، ڈیرہ جات کے علاوہ پنجاب کے کچھ علاقے سمیت دیگر ممالک میں بھی آباد ہیں۔
بلوچستان وہ سرزمین ہے جسے ہردور میں مختلف طاقتوں نے اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کرنے کا عزم و ارادہ بھی کیا ہے ۔ جیسے برطانوی دور میں سویت خطرے سے نمٹنے کے لیے بلوچستان کا نہ صرف استعمال بلکہ تقسیم بھی عمل میں آیا۔ اس کے علاوہ جرمن اور ترکی کے اتحاد سے نمٹنے کے لیے اس علاقے کے مکنیوں کو زیر کرنے کی کوشش کی گئی جس کی وجہ سے سرحد(مغربی بلوچستان) کی لڑائی کی نوبت آگئی۔ سرحدی چھاپہ ماروں اور افغان اینگلوجنگ کے دوران کوہستان مری کی جنگ سے یہ ثابت ہوتی ہے کہ اس سرزمین کے باسیوں نے کھبی دیار غیر سے آ ئے ہوئے لوگوں کو یہ موقع فراہم نہیں کیا کہ وہ یہاں بیٹھ کر اپنے مخالفین کو زیر کرنے کا ارادہ رکھیں البتہ ایک بات روز اول سے مشہور ہے بلوچ قوم مہمان نواز اور میار جل قوم ہے ۔لیکن اپنی سرزمین کی دفاع کے لیے لڑنے سے نہیں کتراتا ۔اس سرزمین کی تاریخ میں بڑے بڑے آشوبی قصے اور کہانیاں ملتے ہیں یہاں حمل جیئند اور میر بلوچ خان نوشیروانی، چاکر کولوائی اور دیگر بڑے بڑے قد آور شخصیات بہت مشہور ہیں ۔ان کے تاریخی کارناموں میں کھبی یہ الفاظ پڑھنے کو نہیں ملتے ہیں کہ بلوچ سرزمین کے باسیوں نے اپنے دیس کے تحفظ کے لیے خوف یاڈر کا مظاہرہ کیا ہے بلکہ دلیری اور بہادری کی تاریخ رقم ہوتے ہم دیکھ سکتے ہیں۔
اسی طرح بلوچ جنگجووں کی حالیہ جنگ ، جنگِ سبدان کی طرف آتے ہیں۔ سبدان ڈسٹرکٹ کیچ اور گوادر کے درمیان دشت کے پہاڑی علاقے میں واقع ہے۔ دشت کے پہاڑی سلسلے بہت مشہور ہیں یہاں دوبڑے بلندوبالا پہاڑی سلسلے مشہور ہیں جن میں سائیجی اور مزن بند ہیں۔ یہ علاقے ہر وقت قابض فورسز کی زمینی اور فضائی آپریشن کی زد میں رہتے ہیں بالکل اسی طرح جس طرح بولان، ناگاہی ، قلات، آواران اور مستونگ کے پہاڑی سلسلے۔ لیکن گوریلہ جنگ کے اصول دیگر روایتی جنگوںسے بالکل الگ نوعیت کے ہیں۔ گوریلہ جنگ کے جنگجو بہت پرسکون اور باریک بینی سے اپنی حکمت عملی تشکیل دیتے ہیں اور مضبوط انٹیلی جنس نیٹ ورک کی رپورٹنگ کے مطابق اپنے نشانے تک جاپہنچتے ہیں اور اپنی حکمت عملی میں وقتا فوقتا دور جدید کی ضرورت کے مطابق تبدیلی لارہے ہوتے ہیں ، کہتے ہیں کہ گوریلہ جنگ کا توڑ ممکن نہیں۔ جس کا نظارہ ہم بلوچستان میں بہتر طور پر کرسکتے ہیں جہاں بلوچ گوریلوں کے پہ در پہ حملوں سے قابض ریاستی سیکورٹی فورسز حواس باختگی کا شکار ہیں۔
امسال بلوچ گوریلہ جنگجوں کے پہ درپہ مختلف علاقے میں کامیاب حملوں نے ریاست کا جینا حرام کر دیا ہے اور سیکورٹی فررسز سکھ کا سانس لینے سے بھی محروم ہےں۔ شب وروز کی پہرہ داری کے باوجود انہیں پتہ نہیں چلتا ہے کہ کس وقت اور کس سمت سے ہمیں نشانہ بنایا جائے گا۔ قابض ریاستی اہلکار بلوچ آزادی پسندوں کے حملوں سے نفسیاتی مریض بن چکے ہیں جہاں بہت سارے ایسے واقعات بھی رپورٹ ہوچکے ہیں کہ کبھی یہ فوجی خودکشی پہ مجبور ہوتے ہیں تو کبھی اپنے ساتھیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ شنید میں آیا ہے کہ قابض کے عام سپاہیوں کو اخبارات اور سوشل میڈیا کی پہنچ سے دور رکھا جاتا ہے تاکہ حقیقت سے وہ روشناس نہ ہوں ۔ بالائی سطح پہ قابض کے اہلکار اس بات کا ادراک رکھتے ہیں کہ اگر عام سپاہی حقیقت حال روشناس ہوگیا تو انہیں مورچوں میں دھکیلنا محال ہوگا ۔۔اگر فورسز کو سوشل میڈیا یا الیکٹرنک میڈیا تک رسائی ہوتی تو شاید کہیں سال قبل فورسز بلوچستان سے انخلا کرتے۔
بلوچ آزادی پسندوں کے حالیہ حملوں کے باعث قابض ریاستی فورسز چھوٹے بڑے بہت سارے چیک پوسٹوں سے انخلا کررہی ہے ، یہ ان کی جنگی حکمت عملی ہے یا مکمل شکست اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے البتہ ان تازہ حملوں میں جن میں سے چند ایک کے ویڈیوز بھی شائع ہوچکے ہیں جن میں قابض کے سپاہیوں کو دم دبا کر بھاگتے دیکھ سکتے ہیں جس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اگر چہ ان کی شکست مکمل نہیں لیکن وہ شکست پہ شکست کھا رہے ہیں ۔
کہیں سالوں سے مقبوضہ بلوچستان میں قابض کی فوجی بربریت تواتر کے ساتھ جاری ہے جہاں لاکھوں کی تعداد میں قابض کے فورسز حصہ لے رہے ہیں اس کے باوجود بلوچ گوریلہ جنگجووں کی کامیاب حکمت عملی کیو جہ سے پاکستانی فورسز کو کافی نقصان کا سامنا رہا ہے اور مزید سامنا کرنا پڑیگا کیونکہ یہ جنگ بلوچ قوم کی زیست اور بقاءکی جنگ ہے ، یہ جنگ ہر حال میں بلوچ قوم کو جیتنی ہے چاہے بلوچ قوم کو بڑے سے بڑے نقصان کا سامنا کیوں نہ کرنا پڑے۔ جب قوم کو اپنی بقاء برقرار رکھنی پڑتی ہے تو وہاں جانیں ضرور جاتی ہیں لیکن قومی بقاء کو برقرار رکھنا لازمی امر ہے۔
دشت سبدان کے اس حملے نے فورسز کی کمرتوڑ دی ہے پوری میڈیا میں پاکستانی صحافیوں اور ریٹائرڈ جنرنیلوں نے کہرام برپا کیا ہے۔ بلوچ مزاحمت کاروں کو انڈین خفیہ ادارے ”را “ کا ایجنٹ قرار دیتے اور انڈیا سرکار پر زار فشانی کرتے کرتے تھک گئے ہیں۔ دوسری جانب بلوچ جہدکاروں کے اس کامیاب حملے نے بین الاقوامی میڈیا یعنی برٹش براڈ کاسٹنگ کے رپورٹر تجزیہ نگاروں سمیت مشہور کالم نگار وسعت اللہ خان اور دیگر صحافت سے وابستہ لوگوں کو ایک گہرے مباحثے پر مجبور کردیاہے ۔ ان کے بحث ومباحث میں بلوچ قومی مسئلہ اور آزادی کی جنگ اور مالی معاونت دیگر امور زیر بحث لانے کے ساتھ ساتھ پاکسانی آرمی کے ترجمان آئی ایس پی آر کو کافی تنقید کا سامنا رہا اور اگلے چند گھنٹوں کے دورانیہ میں آئی ایس پی آر کو اپنے فورسز کی ہار ماننا پڑی۔ دیر آید درست آید۔ فوجی ترجمان نے اپنے دس سیکورٹی اہلکار کی ہلاکت کی تصدیق کردی اور دوسری جانب بلوچ آزادی پسند گوریلہ تنظیم کے سربراہ میجر گہرام بلوچ نے قابض فورسز کے سترہ اہلکار کی ہلاکت قبول کرلی اور اپنے ایک گوریلہ سپاہی ممتاز عرف بالاچ کی شہادت کی تصدیق کردی اور چیک پوسٹ پرقبضے اور اسلحہ قبضہ کرنے کے ساتھ چیک پوسٹ کو بھی نذدآتش کردیا ۔ اسی وقت پر قابض فورسز کے اہلکارچند موٹرسائیکلوں کے ساتھ مدد کے لیے سبدان چیک پوسٹ پہنچ رہے تھے لیکن چیک پہنچنے سے قبل بلوچ جہدکاروں نے فورسز کاعزم و ارادہ خاک میں ملا دیا جس سے فورسز کو ایک اور بڑا دھچکا لگا۔ اس طرح پورے پاکستان میں خوف طاری ہوچکا ہے۔
اس حملے کے بعدعسکری اور سول حکمرانوں کا رخ سبدان اور کیچ رہا۔ بلوچستان کے کٹھ پتلی وزیر اعلی سمیت آئی جی ایف سی ودیگر سول بیوروکریٹس کا تربت کے آرمی کینٹ میں آمد کاسلسلہ جاری رہا۔ شکست خوردہ فوج کے فوجی بیروکوں میں ماتم کاعالم رہا تو اسی اثنا میں فورسز کے اندر چہ منگوئیاں چل رہی تھی کہ اب کیا ہونے والا ہے ، ہر ایک نے ہار مانی تھی اور تربت شہر میں سیکورٹی کو مزید سخت کردی گئی تھی اور فضا میں ہیلی کاوپٹروں کی پروازیں جاری تھی۔ اس دوران خفیہ طور پر پاکستان آرمی کے سربراہ جنرل قمرباجواہ تربت کینٹ میں پہنچ گئے تھوڑی دیر بعد دو بارہ ذریعہ ہیلی کاو¿پٹر سخت سیکورٹی میں سبدان کا فضائی دورہ کرکے واپس آرمی کیمپ پہنچ کر پورے دن سیکورٹی فورسز کے ساتھ گزارا، اور شکست خوردہ فورسز کی حوصلہ افزائی میں مصروفیات کے بعد خفیہ طورپر دوبارہ اسلام آباد کی طرف روانہ ہوا۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جب ایک ریاستی فوجی سربراہ اپنی آمد کو خفیہ رکھتا ہے تو عام فوجیوں کا کیا حال ہوگا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان نے بلوچ سرمچاروں کے مقابلے میں اپنی شکست تسلیم کرلی ہے۔