برطانیہ کی ایک عدالت نے ’کرائے کے قاتل‘ ایک برطانوی شخص کو پاکستانی بلاگر وقاص گورایہ کو نیدرلینڈز میں قتل کرنے کی سازش کا مجرم قرار دیا ہے۔
دوران سماعت لندن کی ایک عدالت کو بتایا گیا کہ برطانوی شہری محمد گوہر خان کو گزشتہ سال ایک لاکھ پاؤنڈ (تقریباً 134,000 ڈالر) معاوضے کی پیشکش کی گئی تھی تاکہ وہ روٹرڈیم جا کر وقاص گورایہ کو قتل کرے۔ تاہم وہ اپنے ہدف کو نشانہ بنانے میں ناکام رہا اور نیدرلینڈ سے واپسی پر گوہر خان کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔
اب جیوری نے متفقہ فیصلہ سناتے ہوئے گوہر خان کو قتل کی سازش کا مجرم قرار دیا ہے اور مجرم کو مارچ میں سزا سنائی جائے گی۔
اس سازش کے مطلوبہ ہدف وقاص گورایہ نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں یقین ہے کہ اس منصوبے کے پیچھے پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کا ہاتھ ہے اور یہ پاکستان اور پاکستان سے باہر اختلاف رائے رکھنے والوں کے خلاف وسیع پیمانے پر کیے جانے والے اقدامات کا حصہ ہے۔
پاکستانی حکام نے اس کیس سے متعلق کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
مشرقی لندن سے تعلق رکھنے والے گوہر خان ایک کارگو کمپنی چلاتے تھے اور اس میں نقصان کے باعث دو لاکھ پاؤنڈ کے مقروض ہوگئے تھے۔ وہ اس وقت ایک سپر مارکیٹ میں بطور ڈیلیوری ڈرائیور نوکری کر رہے تھے، لیکن جب پاکستان سے ایک شخص نے یورپ میں اس ’کام‘ کے لیے ان سے رابطہ کیا تو انھوں نے گرم جوشی سے اس پر ردعمل ظاہر کیا۔
گوہر خان نے عدالت میں یہ دعویٰ کیا کہ ابتدا میں انھیں کام کی نوعیت کا اندازہ نہیں تھا لیکن انھوں نے اس کام کے لیے مزمل نامی ایک مڈل مین کے ساتھ واٹس ایپ پر ہونے والی گفتگو میں مچھلی کے شکار سے متعلق اصطلاحات استعمال کیں۔ مزمل نے اس کام کی اجرت میں سے 20 فیصد حصہ لینا تھا۔
گوہر خان نے ان پیغامات میں کوڈ ورڈ استعمال کرتے ہوئے پوچھا ’کیا یہ گہرے سمندر کی مچھلی ہے یا عام ٹونا مچھلی؟‘
اس کے جواب میں مزمل نے جنھیں کارٹون کردار ’پاپا سمرف‘ سے مشاہبت رکھنے کی بنا پر ’پاپا‘ کے نام سے بھی جانا جاتا تھا، کہا کہ ’ٹونا مچھلی، لیکن برطانوی ٹونا مچھلی نہیں، یورپی ٹونا مچھلی۔‘
ان کا خطرناک ارادہ اس وقت واضح ہو گیا جب گوہر خان نے کام کے لیے ’آلے‘ یا بندوق کی ضرورت پر بات کی جبکہ ایک دوسرے موقعے پر مزمل نے ہدف کے بارے میں لکھا کہ ’یہ شارک نہیں۔۔۔ ایک چھوٹی مچھلی ہے۔ ایک تار کے ساتھ چھوٹا چاقو، کانٹا یا کیڑا کافی ہوگا۔‘
جس شخص کو یہ قتل کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے وہ نیدرلینڈز کے شہر روٹرڈیم میں رہنے والے وقاص گورایہ تھے جو پاکستان کے ایک نمایاں سوشل میڈیا کارکن اور پاکستان حکومت اور فوج کے نقاد ہیں۔
انھیں سنہ 2017 میں اس وقت مبینہ طور پر پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں نے اغوا اور تشدد کا نشانہ بنایا تھا جب وہ پاکستان کے دورے پر تھے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں یقین ہے کہ انھوں نے ہی انھیں یورپ میں قتل کرنے کی کوشش کی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’انھیں ملک میں جبری گمشدگیوں سے متعلق آواز اٹھانا یا ان (خفیہ ایجنسیوں) کے ٹارچر سیلز کے بارے میں بات کرنا پسند نہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ ان کی بزدلی ظاہر کرتا ہے، یہ لوگوں کی باتوں سے خوفزدہ ہیں۔ ان لوگوں سے جو غیر مسلح ہیں اور ان کے پاس قلم یا کی بورڈ کے علاوہ کچھ نہیں۔ یہ بندوقوں والوں کے مقابلے میں ایسے افراد سے زیادہ خوفزدہ ہیں۔‘
اس بارے میں بی بی سی کی جانب سے ردعمل کے لیے کی گئی متعدد درخواستوں کے باوجود پاکستانی فوج نے کوئی جواب نہیں دیا جبکہ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات نے اس مقدمے کے بارے میں بات کرنے سے انکار کر دیا۔
حکومتی حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اظہار رائے کی آزادی پر کوئی قدغن نہیں اور فوج ملکی سیاست میں کردار ادا کرنے کی تردید کرتی ہے لیکن انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروہوں نے متعدد بار پاکستان میں ان صحافیوں اور کارکنوں پر پرتشدد حملوں کے خلاف خدشات کا اظہار کیا ہے جو ملک کے انتخابات میں فوج کے عمل دخل کے الزامات عائد کرتے ہیں۔
اختلاف رائے رکھنے والے پاکستانیوں کو دھمکیوں اور خطرے کا سامنا ملک سے باہر بھی ہے۔
عائشہ صدیقہ ایک مصنفہ ہیں جو پاکستانی فوج کے بارے میں لکھتی رہی ہیں۔ جنوری 2019 میں برطانیہ میں پولیس نے ان کے گھر ج کر انھیں ایک خط دیا جس میں ایسی ’مصدقہ معلومات‘ کے بارے میں متنبہ کیا گیا تھا کہ اگر وہ پاکستان واپس جاتی ہیں تو ان کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر صدیقہ نے وہ خط بی بی سی کے ساتھ بھی شیئر کیا تھا اور کہا تھا کہ ان کی اپنی معلومات سے انھیں یہ پتا چلا کہ ’چند افغان جنگجوؤں کو میرے سر کی قیمت دی گئی ہے کہ میرے پاکستان پہنچنے پر مجھے ختم کر دیا جائے۔۔۔ اگر پارہ بڑھتا ہے تو مجھے برطانیہ میں بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔‘
وقاص گورایہ کی طرح ڈاکٹر عائشہ صدیقہ نے بھی بی بی سی کو بتایا کہ ان کے خیال میں اس خطرے کے پیچھے پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کا ہاتھ ہے۔