جنوبی افغانستان میں افغان سیکیورٹی فورسز پر کیے گئے ایک اندرونی حملے میں 24 سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہو گئے۔
گورنر صوبہ زابل کے ترجمان رحمت اللہ یرمل نے کہا کہ جمعہ کی رات گئے کیے گئے حملے میں 6 پولیس اہلکاروں نے قلات کے قریب پولیس اور فوجی کے مشترکہ ہیڈ کوارٹر میں سوتے ہوئے اہلکاروں پر فائرنگ کردی۔
جس صوبے میں یہ حملہ کیا گیا وہ ایک عرصے سے طالبان کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ رات 3 بجے کے قریب 6 پولیس اہلکاروں نے سوتے اہلکاروں پر فائرنگ کردی جس سے 24 اہلکار ہلاک ہو گئے۔
طلوع نیوز نے زابل کی صوبائی کونسل کے سربراہ عطا جان حق بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 8 حملہ آوروں کے حملے میں 20 اہلکار مارے گئے جبکہ چار افغان سیکیورٹی اہلکار لاپتہ ہیں۔
عطا جان نے کہا کہ حملہ آوروں کے طالبان سے روابط تھے۔
خبر رساں ‘اے ایف پی’ کے مطابق حملہ آور فوج کی دو گاڑیوں اور ایک ٹرک میں بڑی تعداد میں اسلحہ اور بارود لے کر فرار ہو گئے۔
کونسلر اسد اللہ کاکڑ نے کہا کہ اندر کے 8 افراد نے طالبان جنگجوو¿ں کی مدد سے سوتے ہوئے اہلکاروں پر فائرنگ کر کے انہیں ہلاک کردیا اور اپنے ہمراہ اسلحہ و بارود لے کر فرار ہو گئے۔
یہ حملہ ایک ایسے موقع پر ہوا ہے جب افغانستان کے قائم مقام وزیر دفاع اسد اللہ خالد نے کہا کہ امریکا اور طالبان کے درمیان امن معاہدے پر دستخط کے باوجود طالبان کے مستقل حملوں کے پیش نظر ایک اہم دفاعی عملی اپنا لی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس حکمت عملی کی بدولت افغان سیکیورٹی فورسز کو بروقت کارروائی اور دفاع میں مدد ملے گی۔
یاد رہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدے میں امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا اور قیدیوں کی رہائی پر اتفاق ہوا تھا لیکن افغان حکومت کے سبب قیدیوں کی رہائی کا عمل التوا کا شکار ہے۔
طالبان نے معاہدے کے بعد کہا تھا کہ وہ بین الاقوامی افواج پر حملے نہیں کریں گے البتہ افغان سیکیورٹی فورسز پر حملوں کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔
طالبان کے اس اعلان کے بعد امریکا اور افغان حکام نے حملے اور پرتشدد واقعات بند کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔