پاکستان بار کونسل نے برطرف جج شوکت عزیز صدیقی کی وکالت کا لائسنس بحال کر دیا

0
191

پاکستان بار کونسل نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے برطرف کیے جانے والے سینیئر ترین جج شوکت عزیز صدیقی کا وکالت کا لائسنس بحال کر دیا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں پاکستان بار کونسل کی تین رکنی انرولمنٹ کمیٹی نے شوکت عزیز صدیقی کی وکالت کے لائسنس کو بحال کیا ہے۔ اس کمیٹی کے دیگر دو اراکین سید قلب حسن اور سینیٹر اعظم نذیر تارڑ شامل ہیں۔

پاکستان بار کونسل کی تین رکنی انرولمنٹ کمیٹی نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ شوکت صدیقی سپریم کورٹ بار کے وکیل 31 جنوری 2001 کو بنے۔ اُنھیں 21 نومبر سنہ 2011 کو صوبہ پنجاب کے کوٹے سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں پہلے ایڈیشنل جج تعینات کیا گیا اور پھر اُنھیں مستقل جج مقرر کر دیا گیا۔

خیال رہے کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس سنہ 2015 میں دائر کیا گیا تھا اور ان پر اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے سرکاری گھر پر تزین و آرائش کے لیے لاکھوں روپے خرچ کرنے کا الزام ہے۔

یاد رہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو راولپنڈی بار سے خطاب کے دوران فوج کے خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلی جنس یعنی آئی ایس آئی پر عدالتی معاملات میں مداخلت کا الزام عائد کرنے پر نوٹس جاری کیا تھا۔

سپریم جوڈیشل کونسل نے 2018 میں شوکت صدیقی کو بطور جج اسلام آباد کورٹ برطرف کر دیا تھا۔ ان کا یہ مقدمہ ابھی سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔

تاہم کمیٹی نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ شوکت صدیقی کو بدعنوانی یا اخلاقی گراوٹ جیسے الزامات کی بنیاد پر چونکہ سپریم جوڈیشل کونسل نے برطرف نہیں کیا تو اس وجہ سے یہ کمیٹی فوری طور پر ان کے لائسنس کو بحال کرتی ہے۔

شوکت عزیز صدیقی نے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں مظلوم لوگوں کی وکالت کرتا رہوں گا۔

‘ شوکت صدیقی کا مزید کہنا تھا کہ جو کچھ ان سے متعلق لائسنس بحالی کے فیصلے میں لکھا گیا ہے وہ خود انھیں تمام تر الزامات سے بری کردیتا ہے۔

ان کے مطابق وہ اپنی برطرفی کے فیصلے کی پیروی بھی کرتے رہیں گے تا کہ انھیں باعزت مراعات کے ساتھ اس مقدمے میں بھی انصاف مل سکے۔

تاہم شوکت صدیقی نے بتایا کہ اب زائد العمر ہونے کی وجہ سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج نہیں بن سکتے۔ ان کے مطابق ان کی برطرفی کے فیصلے میں تاخیر ضرور ہو سکتی ہے مگر انصاف ضرور ملے گا۔

خیال رہے کہ لائسنس کی بحالی کے باوجود شوکت صدیقی اسلام آباد ہائی کورٹ میں بطور وکیل پیش نہیں ہو سکیں گے کہ وہ اس عدالت کے جج رہے ہیں۔ جو وکلا کسی عدالت میں جج رہے ہوں تو پھر انھیں بعد میں اس عدالت میں بطور وکیل پیش ہونے کی اجازت نہیں ہوتی۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم جوڈیشل کونسل نے ایک شکایت پر آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت جسٹس شوکت صدیقی کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے صدر مملکت سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے مذکورہ جج کو ان کے عہدے سے ہٹانے کی سفارش کی تھی۔

جس پر عمل کرتے ہوئے صدر ڈاکٹر عارف علوی نے اکتوبر سنہ 2018 میں شوکت صدیقی کو برطرف کر دیا تھا۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے جولائی سنہ 2018 میں راولپنڈی بار سے خطاب کے دوران جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے الزام عائد کیا تھا کہ ‘آئی ایس آئی کے اہلکار نہ صرف عدالتی معاملات کو مینوپولیٹ کرتے ہیں بلکہ اپنی پسند کے بینچ بنوا کر اپنی مرضی کے فیصلے لیتے ہیں۔‘

اس تقریر میں جسٹس شوکت صدیقی نے یہ بھی الزام لگایا تھا کہ آئی ایس آئی کے اہلکاروں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس انور کاسی سے ملاقات کر کے اُنھیں سابق وزیر اعظم نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کو احتساب عدالت سے ملنے والی سزا کے خلاف اپیلوں کی سماعت 25 جولائی کو ملک میں ہونے والے عام انتخابات کے بعد کرنے کا کہا گیا تھا جسے جسٹس شوکت صدیقی کے بقول تسلیم کرلیا گیا تھا۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے ان الزامات پر فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو تحقیقات کرنے اور قانون کے مطابق کارروائی کرنے کا کہا تھا۔

مذکورہ جج کے ان بیانات کی روشنی میں وزارت دفاع کی طرف سے ایک شکایت سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر کی گئی تھی جس پر سپریم جوڈیشل کونسل نے کارروائی کرتے ہوئے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا مرتکب پاتے ہوئے اور صدر مملکت کو ان کے عہدے سے ہٹانے کی سفارش کی تھی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here