تربت میں انسٹی ٹیوٹ آف بلوچی لینگویج اینڈ کلچر یونیورسٹی آف تربت کے زیراہتمام “ترجمہ نگاری کی اہمیت اور بلوچی ادب میں ترجمہ نگاری” کے موضوع پر بروزِ پیر ایک روزہ سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ یہ سیمینار دو سیشن پر مشتمل تھا۔
یونیورسٹی آف تربت کا یہ شعبہ ایک عظیم اور اعلیٰ علمی، ثقافتی، اور ادبی ادارہ ہے، انسٹی ٹیوٹ آف بلوچی لینگویج اینڈ کلچر بلوچی زبان، ادب، تاریخ اور ثقافت کی ترقی و ترویج اور درس و تدریس میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔
افتتاحی سیشن کا آغاز تلاوتِ قرآن پاک سے کیا گیا، اور انسٹی ٹیوٹ آف بلوچی لینگویج اینڈ کلچر یونیورسٹی آف تربت کے سربراہ پروفیسر عبدالصبور بلوچ نے استقبالیہ خطاب پیش کیا، اور انہوں نے کہا کہ جامعہ تربت کے انسٹی ٹیوٹ آف بلوچی لینگویج اینڈ کلچر باقاعدہ سائنسی بنیادوں پر کام کر رہا ہے۔
عبدالصبور نے کہا کہ دوسرے سیشن میں بلوچ اسکالرز اپنے مقالے پیش کرینگے۔
پروگرام میں مہمان خصوصی جامعہ تربت کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر جان محمد اور ادارہ فروغ قومی زبان اسلام آباد سے منسلک محبوب بگٹی تھے۔
جامعہ تربت کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر جان محمد نے اپنےخطاب میں کہا کہ ”ترجمہ نگاری ایک فن ہے، اس سے قوموں کی علمی میراث میں اضافہ ہوجاتا ہے، زندہ قومیں اپنی علمی میراث کی نہ صرف حفاظت کرتی ہیں بلکہ اس میں اضافے کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتی ہیں۔”
محبوب بگٹی نے کہا کہ "جامعہ تربت نے ایک اہم موضوع پر سیمینار کا انعقاد کیا ہے، ترجمہ سے دوسری اقوام کی تخلیقی ادب اور تہذیب سے ہم روشناس ہو جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ترجمہ نگاری سے دنیا بھر میں فکری اور علمی پیش رفت اور ادبی منظرنامے سےآگاہی ملتاہے، ترجمہ ان انتہائی موثر وسیلوں میں سے ایک ہے جس سے دور دراز کی تہذیب، ثقافت، تاریخ اور تمدن کو سمجھا جا سکتا ہے۔ اس موضوع پر جامعہ تربت کا سیمینار اہمیت کا حامل ہے اور ایک احسن قدم ہے۔
دوسرے سیشن میں بلوچ اسکالز نے اپنے مقالے پیش کیے، بلوچی زبان کے نامور ادیب شرف شاد نے اپنا مقالہ پڑھا۔
بلوچی زبان و لسانیات اور ترجمہ نگاری کے ماہر پروفیسر طارق رحیم نے بھی اپنا مقالہ پڑھا۔
بلوچی زبان و ادب کے نامور ادیب اے آر داد، پروفیسر طاھر حکیم کے ساتھ چالیس کے قریب بلوچ اسکالز نے اپنے مقالے پڑھے۔ ان مقالوں میں ترجمہ نگاری کی افادیت پہ روشنی ڈالی گئی۔
یونیورسٹی آف تربت کے ھال میں منعقد اس سیمینار میں مختلف مکتبہ فکر کے لوگوں، معززین، طلباء و طالبات، اساتذہ کرام، ادباء، شعراء اور صحافیوں نے بڑی تعداد میں شرکت کیں۔