چین نے اگر تائیوان پرحملہ کیا تواس کا دفاع کرینگے، امریکا

0
187

امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے کہا ہے کہ امریکہ ‘ون چائنا’ پالیسی میں یقین رکھتا ہے، اور وہ تائیوان کو اپنا دفاع کرنے کے لیے مدد دیتا رہے گا۔

آسٹن نے یہ بات نیٹو کے وزرائے دفاع کے دو روزہ اجلاس کے اختتام پر برسلز میں اتحاد کے صدر دفتر میں اخباری نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہی۔ ان سے پوچھا گیا کہ آیا چین کے حملے کی صورت میں کیا امریکہ تائیوان کا دفاع کرے گا۔

لائیڈ آسٹن نے کہا کہ وہ مفروضے پر مبنی بات نہیں کرنا چاہتے۔ انھوں نے کہا کہ ”کوئی بھی نہیں چاہے گا کہ جزیرے کا معاملہ بڑھ کر نوبت لڑائی تک جا پہنچے، اور یقینی طور پر (امریکی) صدر (جو) بائیڈن ایسا نہیں چاہتے۔ اور کوئی وجہ نہیں کہ ایسا ہو”۔

انھوں نے کہا کہ امریکہ ‘ون چائنا’ پالیسی میں یقین رکھتا ہے، یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ بیجنگ کی سارے چین پر حکمرانی ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ”جیسا کہ گزشتہ حکومتوں کے ادوار میں ہوتا آیا ہے، امریکہ تائیوان کی مدد جاری رکھے گا، جسے اپنے دفاع کی ضرورت ہے؛ اور ہم ان باتوں پر دھیان مرکوز رکھیں گے”۔

وہ امریکی صدر جو بائیڈن کے بیان کا حوالہ دے رہے تھے، جو انھوں نے امریکی کیبل نیوز چینل، سی این این کے نشریہ پروگرام میں دیا، جس میں انھوں نے کہا تھا کہ اگر چین حملہ کرتا ہے تو امریکہ تائیوان کا دفاع کرے گا۔

ایک اور سوال کے جواب میں، امریکی وزیر دفاع نے کہا کہ امریکی انتظامیہ اس بات کی خواہاں ہے کہ روس کے ساتھ تعلقات ”توقعات کے مطابق اور مستحکم” نوعیت کے ہوں۔ برسلز کے دو روزہ اجلاس میں نیٹو رکن ممالک نے افغانستان کے علاوہ، روس کے ساتھ تعلقات کا تفصیلی جائزہ لیا۔

انہوں نے یہ بات روس کی جانب سے ماسکو میں نیٹو مشن بند کرنے کے فیصلے سمیت مجموعی طور پر روس کے ساتھ بگڑتے ہوئے تعلقات کے تناظر میں کہی۔ روس کا کہنا ہے کہ اس نے یہ اقدام نیٹو کی جانب سے روسی سفارت کاروں کو اتحاد سے نکالنے کے جواب میں کیا ہے۔

امریکی وزیر دفاع نے کہا کہ نیٹو اتحاد کو مزید مضبوط بنایا جائے گا، جو اعلیٰ استعداد کا حامل ہو اور یورپی دفاع یقینی بنا سکے۔

انھوں نے کہا کہ افغانستان سے انخلا کے دوران مغربی فوجوں کو مسائل درپیش ہوئے جس پر حالیہ دنوں کے دوران یورپی عہدے دار یہ بات زیر غور لائے کہ وہ اپنی عسکری استعداد میں کس طرح سے بہتری لا سکتے ہیں، جس میں امریکہ پر بہت زیادہ انحصار نہ کرنا پڑے۔

آسٹن نے کہا کہ امریکہ ایسی کوششوں کا خیرمقدم کرتا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ امریکہ ایسے اقدامات کو پسند کرے گا جن سے نیٹو کی کوششوں میں مدد مل سکے۔

امریکی وزیر دفاع نے کہا کہ صدر بائیڈن روس کے ساتھ اس قسم کے تعلقات چاہتے ہیں جو ”پیش گوئی کے قابل اور مستحکم” نوعیت پر مبنی ہوں۔

بقول ان کے، ”میرے خیال میں ہمارے جیسے ملکوں کے لیے، یہ بات بہت اہمیت کی باعث ہے۔ ہم یہ بات یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ ہم اپنے اتحادیوں اور پارٹنرز کی حمایت جاری رکھیں جو اپنے ملکوں کی خودمختاری کا تحفظ کرنے کے خواہاں ہیں، اور اپنی طاقت پر بھروسہ کرتے ہوئے خود پر انحصار کے قائل ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ ہم ان کی حمایت کرتے رہیں گے۔ آپ دیکھیں گے کہ ہم نیٹو کے اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کرتے رہیں گے”۔

آسٹن نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ طالبان کی جانب سے اقتدار سنبھالنے کے بعد امریکہ خواہش مند افراد کو ملک سے باہر نکالنے کا کام جاری رکھنے کے عزم پر قائم ہے۔

انھوں نے کہا کہ وہ افراد جنھوں نے ہمارا ساتھ دیا اور ملک سے باہر نکلنے کے خواہش مند ہیں، ہم ان کے انخلا کے لیے ہر ممکن مدد فراہم کرتے رہیں گے۔

افغانستان میں 17 روز تک جاری رہنے والے انخلا کے مشن کے دوران، امریکہ نے ابتدائی طور پر 124،000 افراد کو ملک سے باہر نکالا۔ بقول ان کے، ”ہم یہ کام اس لیے کر پائے چونکہ ہمیں اپنے اتحادیوں اور پارٹنرز کی بے انتہا مدد حاصل رہی، اور یہ ایک مثالی نوعیت کا ٹیم ورک تھا”۔

امریکی وزیر دفاع نے کہا کہ، ”یہ ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے کہ ہم جانفشانی سے کام لیتے ہوئے ان لوگوں کی مدد کے کام کو یقینی بنائیں، جنھوں نے افغانستان میں ہمارے ساتھ کام کیا تھا”۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here