کٹھ پتلی وزیراعلیٰ بلوچستان کیخلاف تحریک عدم اعتماد پیش،4ارکان اسمبلی لاپتہ

0
253

کٹھ پتلی وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کردی گئی ہے۔

بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی۔

تحریک عدم اعتماد سردار عبدالرحمٰن کھیتران نے پیش کی اور اسپیکر نے رولنگ دی کہ تحریک عدم اعتماد کو مطلوبہ ارکان کی حمایت حاصل ہوگئی ہے اور 33 ارکان نے قرارداد کی حمایت کر دی ہے۔

بلوچستان عوامی پارٹی کے ترجمان سردار عبدالرحمٰن کھیتران نے اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ 65 کا ایوان ہے، جام کمال خان ہمارے لیے قابل احترام شخصیت ہیں، یہ ایک قبیلے کے سردار ہیں، ان کو قائد ایوان بھی اکثریت کے بل بوتے پر منتخب کیا گیا تھا اور آج بھی اکثریت کے بل بوتے پر یہ قرارداد آ گئی ہے اور اس ایوان نے فیصلہ کردیا ہے حالانکہ ہمارے 4اراکین اسمبلی کو لاپتہ کردیا گیا ہے اور وہ اب مسنگ پرسنسز میں شامل ہو گئے ہیں، جن میں بشریٰ رند، لیلیٰ ترین، اکبر آسکانی، مہاجبین بلوچ شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کسی کا گلا دبا کر کوئی اقتدار میں نہیں رہ سکتا، یہ بلوچستان کی روایت نہیں ہے کہ کسی کو آپ مسنگ اور اغوا کریں اور ایوان کے تقدس کو پامال کریں، کسی کو اس کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

سردار عبدالرحمٰن نے لاپتا افراد کی بازیابی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر لاپتا افراد کو بازیاب نہ کرایا گیا تو یہ ایوان اور پورا بلوچستان احتجاج کرے گا، ہم اس سطح پر نہیں جانا چاہتے، ہمارے لیے ہر ادارہ قابل اعتماد ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب ایوان کا ایک شخص سے اعتماد اٹھ گیا ہے تو بہتر یہی ہو گا کہ جام کمال خان استعفیٰ دے دیں، اقتدار سے چپکے رہنے کا فائدہ نہیں ہے، آج پانچ لاپتا ہیں، کل مزید پانچ لاپتا کر لیں گے، شاید ان کی کرسی بچ جائے لیکن اب یہ ایوان نہیں چلے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ اخلاقیات اور بلوچستان کی روایت کا تقاضا ہے کہ فوری طور پر جام کمال خان مستعفی ہو جائیں کیونکہ ہم تاریخ میں یہ نہیں لکھوانا چاہتے کہ انہیں وزیراعلیٰ کے منصب سے ہٹایا گیا۔

اس موقع پر قائد حزب اختلاف ملک سکندر ایڈووکیٹ نے ایوان سے خطاب میں پانچ اراکین صوبائی اسمبلی لاپتہ ہونے پر احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح سے ایوان نہیں چلے گا اور اس طرح سے آج جو بھی لوگ اپنا آئینی اور جمہوری حق استعمال کررہے ہیں، انہیں گرفتار کیا جا سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھاکہ اگر پانچ اراکین اسمبلی کو اپنا جمہوری حق استعمال نہ کرنے دیا جائے تو کیا یہ ایوان اور وزیر اعلیٰ اس طرح سے چل سکتے ہیں، یہ ناممکنات میں سے ہے لہٰذا اسپیکر اراکین اسمبلی کی بازیابی کا حکم دیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر ایسا نہ ہوا تو ہم گھر نہیں جائیں گے، یہیں بیٹھ کر سڑکیں بند کریں گے اور اس وقت تک بیٹھیں گے جب تک یہ غیرآئینی، غیرقانونی اور غیرجمہوری عمل ختم نہیں ہوتا۔

اس سے قبل بدھ کو بلوچستان عوامی پارٹی کے ناراض اراکین اور متحدہ اپوزیشن نے حکومت اور وزیراعلیٰ کو مزید دو اراکین کی حمایت سے محروم کردیا ہے۔

ناراض اراکین اور متحدہ اپوزیشن نے ایم پی اے ہاسٹل میں بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے رہنما احسان شاہ سے ملاقات کی۔

بعدازاں میڈیا سے بات کرتے ہویے بلوچستان عوامی پارٹی کے ترجمان سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ پاکستان عوامی پارٹی کے رہنما احسان شاہ بھی ہمارے قافلے میں شامل ہوگئے ہیں جبکہ نور محمد دمڑ بھی ہمارے کاروان میں شامل ہوگئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سرادر اختر مینگل سے بھی بات ہوئی ہیں اور انہوں نے بھی حمایت کی یقین دہانی کرائی ہے جس کے بعد آج ہمارے حمایتی اراکین کی تعداد 42 تک پہنچ گئی ہیں۔

دوسری جانب وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے بلوچستان اسمبلی کے باہر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پہلے روز سے کہہ رہا ہوں کہ اتحادی ہمارے ساتھ ہیں اور ہم پر امید ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پہلی مرتبہ اپوزیشن حکمراں جماعت کے ساتھ مل کر کھیل رہی ہے، سیاست میں سب پر اعتماد ہوتے ہیں، یہ کیسے ممکن ہے کہ حکومتی اراکین اپوزیشن کے ساتھ مل کر تحریک لے کر آئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگرتحریک عدم اعتماد اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے آتی تو بات بنتی تھی، اپوزیشن نے نااتفاقی پیدا کرنے کے لیے ماحول پیدا کیا۔

جام کمال خان نے کہا کہ ہم بلوچ اور پشتون ہیں اور کسی کو دعوتوں میں جانے سے نہیں روکتے، احسان شاہ ہمارے ساتھ ہیں اور امید کرتے ہیں کہ ثنااللہ زہری بھی ہمارا ساتھ دیں گے، 26 اراکین ہمارے ساتھ ہیں جبکہ یار محمد رند بھی ہمارے ساتھ مشاورت میں تھے۔

قبل ازیں وزیر اعلیٰ نے بلوچستان عوامی پارٹی کے اراکین اور اتحادیوں کو ظہرانہ دیا تھا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here