شبیر بلوچ کی زندگی کو پاکستانی عقوبت خانوں میں خطرات لاحق ہیں، بی این ایم

ایڈمن
ایڈمن
3 Min Read

بلوچ نیشنل موؤمنٹ کے مرکزی ترجمان نے بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے سابقہ مرکزی انفارمیشن سیکریٹری شبیر بلوچ کی جبری گمشدگی کو پانچ سال کا طویل دورانیہ مکمل ہونے پر اپنے بیان میں کہا کہ شبیر بلوچ طالب علم رہنما تھے جنہیں بلوچ قومی تحریک آزادی میں شعوری جدوجہد کی پاداش میں ریاستی اداروں نے ان کی اہلیہ کے سامنے جبری گمشدگی کا شکار بنا دیا۔ پانچ سال کے طویل عرصے میں شبیر بلوچ کی زندگی کے بارے میں ان کے خاندان کو کوئی اطلاع فراہم نہیں کی گئی کہ وہ کس حالت میں ہے۔ بی ایس او آزاد اور ان کی بہن اور اہلیہ نے شبیر کی بازیابی کے لئے تمام تر پُرامن ذرائع استعمال کئے لیکن صرف دلاسہ دیکر ان کے خاندان کو تسلی دی گئی۔ عملی طور پر ان کی بازیابی کے لئے کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی گئی جو ایک تشویشناک امر ہے۔

ترجمان نے مزید کہا کہ پاکستان کے عقوبت خانوں میں شبیر بلوچ کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہے کیونکہ شبیر سے قبل سینکڑوں بلوچ سیاسی کارکنان کی جبری گمشدگی کے واقعات رونما ہوئے جنہیں اذیت خانوں میں بدترین تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد مسخ شدہ لاش کی شکل میں پھینک دیا گیا۔

قابض ریاست بلوچ قومی تحریک آزادی کو کاؤنٹر کرنے کے لئے سیاسی رہنماؤں کی جبری گمشدگی اور ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکنے کے جرم کا مرتکب رہا ہے۔ یہ ریاستی ظلم و ستم کی عکاسی کرنے کے لئے کافی ہے۔

ترجمان نے مزید کہا کہ ریاست اپنے اساطیری تصویر کے ذریعے بلوچ قوم میں نو آبادیاتی بیگانگیت کو فروغ دینے کی کوششوں میں مصروف عمل ہو کر بلوچ قوم بالخصوص نوجوانوں کو شعوری جدوجہد سے روکنے کی کوشش کررہی ہے۔ اس کے خلاف شبیر بلوچ جیسے نوجوانوں کی جدوجہد ریاستی راہ میں رکاوٹ ہے اور اسی ریاستی رکاوٹ کو دور کرنے کے لئے شبیر اور دیگر سیاسی رہنماؤں کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا۔

مرکزی ترجمان نے بیان کے آخر میں شبیر بلوچ کے اہلخانہ کی جانب سے کل کراچی پریس کلب کے سامنے ہونے والے احتجاجی مظاہرے کی مناسبت سے بلوچ عوام، سول سوسائٹی، اور دیگر مظلوم اقوام سے شرکت کی اپیل کی۔

Share This Article
Leave a Comment