امریکا اورروس نے ”اسلامی امارات افغانستان“ کو قبول کرنے سے انکار کردیا

0
489

امریکا اور روس نے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ساتھ کام کرنے پر اتفاق کیا ہے کہ عالمی برادری ’اسلامی اماراتِ افغانستان‘ کی بحالی کی حمایت یا اسے قبول نہ کرے۔

میڈیا رپورٹوں کے مطابق اس سلسلے میں امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے جاری کردہ ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ امریکا اور روس ’ایک سیاسی عمل اور مفاہمت کے بعد افغان اسلامی حکومت میں بین الافغان بات چیت میں متعین ہونے والے اپنے ممکنہ کردار‘ کے حوالے سے طالبان کے عزم کو سراہتے ہیں۔

تاہم انہوں نے ’دہرایا کہ اسلامی امارت افغانستان کو بین الاقوامی برادری اقوامِ متحدہ میں تسلیم نہیں کرے گی، مزید یہ کہ عالمی برادری بھی اسلامی امارت افغانستان کی بحالی کو قبول یا اس کی حمایت بھی نہیں کرے گی‘۔

دوسری جانب 2 روز قبل طالبان کی جانب سے بھی ایک بیان سامنے ا?یا جس میں انہوں نے اس بات پر اصرار کیا کہ 2001 میں امریکا کی جانب سے کابل حکومت کے خاتمے سے قبل جو ’اسلامی حکومت‘ قائم تھی اسے بحال کرنا ان کا فرض ہے تاہم انہوں نے بھی اسلامی امارت افغانستان کا لفظ استعمال کرنے سے احتراز برتا تھا۔

واضح رہے کہ امریکی نمائندوں نے مذکورہ بالا مشترکہ بیان کو دوحہ میں طالبان کے ساتھ ہونے والے امن معاہدے پر دستخط سے ایک روز قبل یعنی 28 فروری کو مسودے کی شکل دی تھی۔

اس معاہدے کے تحت افغانستان سے14 ہزار امریکی اور نیٹو فورسز کے انخلا کے لیے کچھ شرائط رکھی گئیں تھیں اور کابل میں نئے انتظامی ڈھانچے کی تشکیل کے لیے بین الافغان بات چیت کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

اس کے باجود طالبان کا اصرار ہے کہ ان کے رہنما ملا ہیبت اللہ ’افغانستان کے واحد قانونی حکمراں‘ ہیں اورافغانستان میں ’اسلامی حکومت‘ کی بحالی ان کا فرض ہے۔

طالبان نے اپنے بیان میں کہا کہ دوحہ معاہدے کا مقصد افغانستان میں 19 سال سے جاری جنگ کا خاتمہ ہے لیکن اس کا ان کے ’جائز دعووں‘ پر ’کوئی اثر نہیں ہوگا۔

دوسری جانب امریکا اور روس نے اپنے مشترکہ بیان میں بین الافغان بات چیت کے آغاز کے لیے اپنی تیاری کا اظہار کیا تا کہ امن معاہدے کی حمایت کے طور پر طالبان رہنماو¿ں پر ’نافذ پابندیوں پر نظر ثانی‘ کیا جائے۔

بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ طالبان کی جانب سے پرتشدد کارروائیوں میں مزید کمی اور دوسری صورت میں ’جو افغانستان یا دیگر ممالک کے امن، سلامتی اور استحکام کے لیے خطرہ بننے والے سرگرمیوں کی حمایت یا ان میں شمولیت اس نظرِ ثانی پر اثر انداز ہوگی‘۔

اس کے ساتھ دونوں ملکوں نے جنگ ختم کرنے اور علاقائی سیکیورٹی اور عالمی سالمیت کردار ادا کرنے والا جامع اور پائیدار امن معاہدہ لانے کے لیے کابل حکومت، سول سوسائٹی اور طالبان کے ساتھ مل کر کام کرنے کا وعدہ کیا۔

روس اور امریکا نے طالبان اور دیگر افغان گروپس سے مطالبہ کیا کہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں کہ افغانستان کی سرزمین، القاعدہ، داعش یا کسی اور عالمی دہشت گروہ کے عسکریت پسند کسی ملک کو دھمکی دینے یا حملہ کرنے کے لیے استعمال نہ کرسکیں۔

علاوہ ازیں دونوں ملکوں نے تمام افغانوں سے فوری طورپر باہمی تشویش کے امور مثلاً قیدیوں کی رہائی اور جنگ بندی پر فوری بات چیت کا آغاز کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here