اگست 11 اور برطانیہ کا کرداد – تحریر:۔ ڈاکٹر جلال بلوچ

0
360

دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانوی طاقت کافی کمزور پڑچکی تھی۔ اسی لیے وہ اپنے نوآبادیات کے ساتھ ساتھ ان علاقوں سے بھی رخت سفر باندھ رہا تھا جہاں مختلف ادوار میں ہونے والے معاہدات کی رو سے اسے بعض اختیارات تفویض کیے گئے تھے۔ انہی علاقوں میں بلوچستان بھی شامل ہے۔ برطانوی سرکار نے 1838ءسے حکومت بلوچستان یا ریاست قلات کے ساتھ معاہدات شروع کیں۔ لیکن انہوں نے بلوچوں کے ساتھ ہونے والے معاہدوں جن میں 1854ءکا معاہدہ عدم مداخلت بھی شامل ہے کی پاسداری نہ کی ۔ 11 ۱گست 1947ءکو جب دہلی سے بلوچستان کی آزادی کا اعلان کیا گیا تو وہ تمام علاقے جو 1887ء کے معاہدے کے تحت مستجار لیے گئے تھے یا برطانوی سرکار کے وہ اختیارات جن میں وہ اپنے نوآبادیات کو کنٹرول کرنا تھا وہ تمام ازخود ختم ہونے تھے لیکن جاتے جاتے برطانیہ نے بلوچوں کو ایک ایسے جال میں پھنسانے کی پالیسی اپنائی جو آج بھی بلوچوں کے گلے کا طوق بنا ہوا ہے۔ برطانیہ کے جانے کے بعد بلوچوں کوفقط سات (7) مہینے اور پندرہ (15) دن تک سکون کا سانس نصیب ہوا۔ اس کے بعد برطانیہ کا تشکیل دیا گیا نوزائیدہ اور غیر فطری ریاست نے اپنے آقا کے ساتھ ملکر ایشیا کی قدیم تہذیب کے وارثوں کو جن کی قدیم تاریخ انہیں اہم و بلند مرتبے پہ رکھتی ہے، غلامی کی تاریک راہوں کا مسافر بنادیا۔

اس مضمون میں بلوچ قوم کی نسلی اور ریاستی تاریخ ، بلخصوص ریاست قلات کے قیام سے لیکر زوال تک کے سفر کا مختصراً جائزہ لیں گے۔

بلوچوں کے نسلی پس منظر کے حوالے سے مختلف آراءسامنے آتی ہیں۔ نسلی پس ِ منظر کے ان اختلافی نظریات میں نہ صرف غیر بلوچ شامل ہیں بلکہ بلوچ دانشور بھی اس حوالے سے تقسیم کا شکار ہیں۔ نسلی پسِ منظر کے حوالے سے اختلافی نظریات کے بنیادی اسباب یہ ہیں کہ اب تک بلوچستان سے دریافت ہونے والے آثار قدیمہ پہ مکمل تحقیق نہیں ہوئی ہے۔ جن میں مہر گڑھ کا شمار دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں ہوتا ہے جو گیارہ ہزار (11000) سال پہلے وجود میں آیا تھا۔ اس کے علاوہ بھی بلوچستان میں کوئی علاقہ ایسا نہیں جہاں قبل از تاریخ کی بستیاں دریافت نہ ہوئے ہوں۔ غلامی کے سبب بلوچستان میں ستر سال بعد یعنی حال ہی میں علم ِ آثار قدیمہ کی درس و تدریس کا سلسلہ شروع ہوا اور اس مختصر عرصے اور دورِ غلامی میں یہ ممکن ہی نہیں کہ دریافت ہونے والے نشانات یا تحریر وغیرہ کو کوئی پڑھ کر اپنے آباﺅ اجداد سے اپنے خونی رشتے کو ثابت کرلیں۔البتہ سائنسی تحقیق تو نہیں ہوئی جو یہ ثابت کرلیں کہ دریافت ہونے والی ان بستیوں اور شہر وں میں بلوچ آباد تھے لیکن جوں ہی ہم ان آثار یا ان کے آس پاس آج کی آبادیوں کو دیکھتے ہیں تو یہ یقین ہوجاتا ہے کہ ہمارا ان مدفون بستیوں اور شہروں اور ان میں رہنے والوں سے ازل کا رشتہ ہے جو ہمیں ان سے دور رہنے کی اجازت ہی نہیں دیتی۔
دوسری وجہ جو بیان کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ بلوچوں کے پاس ماضی کی تحریرکردہ مواد فقط” رندی“ شاعری ہی ہے جو چند صدیاں پرانی ہے۔ البتہ بلوچوں کی اس قدیم شاعری سے قبل مشہور شاعر مولانا ابولقاسم فردوسی نے اپنی شاعری کے مجموعہ ”شاہنامہ“ میں بعض مقامات پہ بلوچوں کا ذکر کیا ہے یعنی ہزار(1000)سال قبل لفظ بلوچ بحیثیت قوم تحریری طور پر سامنے آچکا ہے۔ اس کے علاوہ یونانی اور عرب مورخین نے بھی بلوچستان میں بلوچوں کی موجودگی کا ذکر کیا ہے۔ بالخصوص بابائے تاریخ ہیروڈوٹس نے اپنی ساتویں کتاب میں کثرت سے ان کا تذکرہ کیا ہے۔ البتہ وہ انہیں ان کے قبائل کے نام سے یاد کرتا ہے، جیسے وہ پرکانی قبیلے کے افراد کو ”پاریکانی“، محمدشئی کو ”مائشی“ محمدحسنی کو”ماسینی“ ہوت کو ” ہوتین“ آسکانی قبیلے کو”پارتی“ ناروئی کو ”ناروئی“ مکران کے باشندوں کو ”میکرونی “ اور توران میں بسنے والوں کو”تیارانی“ کے ناموں سے تحریر کرتا ہے۔ فردوسی اور ہیروڈوٹس کی تحریروں میں جو اہم نقطہ سامنے آتا ہے وہ ہے بلوچوں کی سپاہیانہ سرشت؛ کیوں کہ یہ دونوں ہستیاں انہیں زیادہ تر منظم لشکر کی صورت میں مسلح کارروائیوں میں مصروف دکھاتے ہیں۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بلوچ قوم ہزاروں سے سالوں سے اس خطے میں آباد ہے اور دریافت شدہ یہ آثار انہی کے آباﺅ اجداد کے ہیں۔ وہ چاہے مہرگڑھ ہو، کوئٹہ کے آثار، آمری ثقافت ہویا کولی ثقافت ان سے ان کا رشتہ ازلی ہے اور یہی وہ سرزمین ہے جس سے اس کا خمیر اٹھایا گیا ہے۔لہذا وہ نظریات جن میں انہیں تاجک، دراوڑ، کردی النسل، ترکمان، عرب، ہن، ساقا، آرین وغیرہ کہا گیا ہے وہ مفروضات کے سوا اور کچھ نہیں۔ بہرحال اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتاکہ موجودہ دور کا بلوچ قوم ایک کثیر النسلی قوم ہے جس میں عرب، آرین کے ساتھ ساتھ شمال کے ترکمان اور تاجکوں کی آمیزش بھی شامل ہے۔ اس کابنیادی سبب یہ ہے کہ، یہ سرزمین ایک ایسے مقام پہ قائم ہے جو ہر آنے والے حملہ آور کے لیے مشرق و مغرب اور شمال و جنوب کو اپنے تسلط میں رکھنے کے لیے اہم مقام کا حامل رہا ہے۔

ڈھائی ہزار سال قبل بابائے تاریخ ہیروڈوٹس اور ہزار سال قبل ابولقاسم فردوسی کا اس پورے خطے میں انہیں قوت کے طور پر ظاہر کرنا اور جگہ جگہ دریافت ہونے والے آثار سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بلوچ قوم ایشیا کی قدیم ترین قوموں میں سے ایک ہے۔ بلوچستان سے دریافت ہونے والے آثار سے اگرچہ اب تک یہ ثابت نہیں ہوا کہ یہاں زمانہ قدیم میں کوئی عظیم سلطنت قائم ہوا ہو لیکن وہ اپنے خطے میں خودمختار رہے ہیں۔ اسی لیے وہ ایرانی لشکر میں اہم مناصب پہ فائز تھے۔
مستند تاریخ کی رو سے بلوچوں کی اس خطے میں پہلی آزاد حکومت 1410ءمیں قائم ہوا جہاں انہوں نے نغاڑ جو سوراب میں واقع ہے کو اپنا پایہ تخت بنایا۔ یہ میروانی دور اقتدار کہلاتا ہے۔ اس دوران قلات پہ منگولوں کی حکمرانی تھی لیکن منگولوں کی طاقت جوں ہی کمزور پڑگئی تو بلوچوں کے کمبرانی قبیلے نے اپنی چھوٹی سی ریاست بنالی۔ کچھ ہی عرصے بعد یعنی 1450ءمیں پورے خطہ مکران میں رندوں نے میر شہیک کی سربرائی میں اپنی حکومت قائم کی۔ یعنی ایک ہی زمانے میں سرزمین بلوچستان پہ دو بلوچ حاکم تھے۔ ایک حاکم مکران اور دوسری حکومت جہلاوان اور اس کے مضافات میں قائم ہوچکا تھا۔
1530ءمیں ارغونوں کو مغلوں کے ہاتھوں قندھار میں شکست ہوئی۔ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر میر عمر قمبرانی نے قلات پہ دھاوا بول دیا۔ اس جنگ میں بلوچوں نے ارغونوں کو شکست دیکر ریاست پہ قبضہ کرلیا جس کے بعد ”قلات شہر“ ریاست کا پایہ تخت بھی بنا۔

میروانیوں نے ابھی قلات میں اپنے قدم بھی نہیں جمائے تھے کہ انہیں رند بلوچوں کے ہاتھوں ہزیمت اٹھانی پڑی اور یوں قلات ایک مختصر مدت کے لیے رندوں کے زیر اثر چلا گیا۔ تاآنکہ میر عمر جو قلات کی لڑائی میں رندوں کے ہاتھوں مارا گیا ، اس کا بیٹا میر بجار نے دوبارہ قلات پہ قبضہ کرکے اپنی حکومت قائم کی۔

1666ءتک قلات پہ میروانیوں کی حکومت رہی، اس کے بعد قلات قمبرانی بلوچوں کی ایک اور شاخ احمد زئی خاندان کے زیرِ تسلط آیا۔ جس کا پہلا حکمران میر احمد خان تھا۔ میر احمد خان نے ستائیس (27)سال تک بلوچستان پہ حکمرانی کی۔ اس کی حکمرانی کا بڑا عرصہ بلوچ ریاست کو وسعت دینے میں گزرا۔ اسی لیے وہ اکثر دیگر اقوام کے خلاف میدان جنگ میں مصروف رہا۔ اس دوران انہوں نے باروزئی، مغل اور جاٹ وغیرہ کو شکست دیکر بہت سارے علاقے ریاستِ قلات کی عملداری میں شامل کرلیا۔ فتوحات کا یہ سلسلہ نصیر خان کے عہد میں پایہ تکمیل تک پہنچتا ہے اور یوں وہ تمام علاقے جہاں بلوچ آباد تھے ، ایک ہی ریاست کے زیر اثر آگئے۔

نصیر خان نے جس عظیم ریاست کے خواب کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جس کے لیے بلوچوں نے ہزاروں جانیں قربان کیں، لیکن عہدِ نصیری کے بعد کوئی ایسا حاکم نہیں گزرا جو بلوچ ریاست کو مزید منظم کرنے کی تگ و دو کرے۔ ان کی آپسی چپقلش کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی۔ اسی لیے نصیر خان کی وفات کے سولہ (16)سال بعد برطانوی جاسوس بلوچستان کو ہڑپنے اور اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے بلوچستان کا رخ کرتے ہیں۔ برظانوی جاسوسی مہم کی ابتداء 1810ء میں ہنری پوٹینگر اور اس کی ٹیم جس میں کیپٹن کرسٹی اور کیپٹن گرانٹ شامل تھا، ہوتاہے۔ وہ ازبک تاجروں کے بھیس میں بمبئی کا ساحلی راستہ اختیار کرکے سونمیانی بندرگاہ پہنچتے ہیں۔ ایک سال تک وہ بلوچستان کی حال حقیقت معلوم کرتے رہے اور یوں بلوچ حاکموں کی تمام تر کمزوریوں سے وہ آگاہ ہوئے۔ اور یوں 1839ءمیں جنرل ولشائر جو کہ انڈس سیکٹر کے سربراہ ہنری پوٹینگر کے ماتحت تھا کی رہنمائی میں قلات پہ دھاوا بولتا ہے۔ اس جنگ میں بلوچ حاکم مہراب خان جوانمردی سے دشمن کا مقابلہ کرتا ہوا اپنے سینکڑوں ساتھیوں سمیت شہید ہوتا ہے اور یوں 13 نومبر کے اس خون ریز معرکہ کے بعد قلات انگریزوں کے زیرِ تسلط آجاتا ہے لیکن انگریز یہاں بھی احمد زئی خاندان کے ایک فرد شہنواز خان کو ریاست کی ذمہ داری تفویض کرتے ہیں۔ ایک سال بعد نصیر خان ثانی دوبارہ قلات انگریزوں اور ان کے کٹھ پتلی خان سے حاصل کرنے میں کامیاب تو ہوجاتا ہے۔ لیکن یہ کامیابی بھی عارضی ثابت ہوتی ہے اور جوں ہی انگریزوں کو افغانستان کے راستے مدد و کمک پہنچتی ہے تو وہ دوبارہ قلات پہ چڑھائی کرکے نصیر خان ثانی کی حکومت کو اپنے انجام تک پہنچاتے ہیں۔

اس دوران بلوچستان بھر میں انگریزوں کے خلاف نہ ختم ہونے والا مزاحمت شروع ہوتا ہے، کوہ سلیمان سے لیکر مکران تک بلوچ سروں پہ کفن باندھ کے میدان عمل کا رخ کرتے ہیں۔ بلوچوں کی اس سو سالہ جدوجہد میں ایک جانب بلوچ جانبازوں جن میں بلوچ خان نوشیروانی، غلام قادر مسوری، نورا مینگل، گل بی بی، سردار شہسوار، سردار خلیل اور کوہستان مری کے سپوتوں کی قربانیاں ہیں تو دوسری جانب دھوکہ و دغا بازی کی داستانیں بھی رقم ہوتی رہیں۔

سو سالہ برطانوی دور میں ریاست قلات اور انگریزوں کے مابین مختلف معاہدات ہوتے رہے جن میں 1854ء کا معاہدہ عدمِ مداخلت بھی شامل ہے لیکن ایسے تمام معاہدات برائے نام تھے کیونکہ ایک طاقتور حریف اسی پالیسی پہ عملدار آمد کرتا ہے جو اس کے مفاد میں ہو۔جیسے بلوچستان کی آزاد حیثیت کو تسلیم کرنے کے باوجود برطانیہ کا غیر فطری ریاست پاکستان کا بلوچستان پہ قبضہ کرنے کی پالیسی کو عملی جامہ پہنانا۔
کیوں کہ انہیں بلوچستان کی جغرافیائی اہمیت کے بارے میں مکمل جانکاری حاصل تھی کہ یہ سرزمین ایک ایسی دوہرائے پہ قائم ہے جو جنوبی ایشیا، سینٹرل ایشیا اور خلیج کا سنگم کہلاتا ہے۔ اسی جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے وہ بلوچ ریاست کو اپنا زیر تسلط لانا ضروری خیال کرتے تھے۔

18 نومبر1887ءمیں ایک قرارداد کے ذریعے نیا صوبہ برٹش بلوچستان کے نام سے قائم کیا گیا جس میں سبی، مری ، بگٹی اور کھیتران علاقے شامل تھے یوں انگریزوں نے بلوچستان کا بٹوارا کیا۔

پہلی جنگ عظیم میں بلوچوں نے انگریزوں سے نفرت کا بھر پور اظہار کیا۔ اسی لیے انہیں ہم جرمن بلاک میں دیکھتے ہیں، بالخصوص مغربی بلوچستان کے بلوچ۔
معاہدات جو ریاست قلات اور انگریزوں کے مابین ہوئے تھے بالخصوص 1854ءکا معاہدہ عدمِ مداخلت جس میں بلوچستان کے اندرونی معاملات میں انگریزوں کو دخل اندازی کا حق نہیں تھا لیکن طاقتور اور محکوموں میں ایسے معاہدات فقط دستاویز کی صورت میں ہوتے ہیں جنہیں قابل عمل بنانا استعمار کے لیے ممکن ہی نہیں۔ پہلے پہل تو بلوچستان کی جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے خطے کی اہمیت تھی لیکن جوں ہی معدنیا ت دریافت ہونا شروع ہوئے تو خطے کی اہمیت مزید بڑھ گئی۔
پہلی جنگ عظیم کے فوراً بعد 1920ءمیں میرعبدالعزیز کرد نے بلوچ مزاحمت کوایک نئی سمت دی جہاں انہوں نے ”ینگ بلوچ “ کے نام سے ایک سیاسی تنظیم قائم کی۔ البتہ اس کی کارگزاری خفیہ رکھی گئی۔ ینگ بلوچ کو قائم ہوئے ابھی کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ میرعبدالعزیز کرد نے نواب یوسف عزیز مگسی کے ساتھ مل کر ینگ بلوچ کو حال ہی میں معرض وجود میں آنے والی جماعت ”انجمن اتحاد بلوچاں “ میں ضم کردیا۔ یہ جماعت چونکہ کھلے عام اپنے موقف کا اظہار کرتا تھا، لہذا اب جدوجہد نے ایک نیا رخ اختیار کیا اور یوں انجمن اتحاد بلوچاں کے کارکنان گاﺅں گاﺅں، کریہ کریہ گھوم پھر کر بلوچوں کی سیاسی تعلیم و تربیت میں مشغول ہوگئے۔ انجمن اتحاد بلوچاں ایک سیکولر سوچ کے ساتھ آگے بڑھ رہی تھی لہذا سکہ رائج الوقت نے انہیں راستے سے ہٹانے کی بھرپور کوشش کی۔

ان کا یہ متحرک کردار تھا جس کی وجہ سے ریاست نے میر عبدالعزیز کرد کوگرفتار کرکے تین سال کی سزا دی۔میر عبدالعزیز کرد ابھی جیل ہی تھے کہ نواب یوسف عزیز مگسی 1935ء میں کوئٹہ میں ہونے والے زلزلے میں وفات پاگئے اور یوں بظاہر انجمن اتحاد بلوچاں کا باب بھی اختتام پذیر ہوا۔

1936ءمیں جب میر عبدالعزیز کرد جیل سے رہا ہوئے تو انہوں نے سیاسی عمل کو مزید مربوط خطوط پہ استوار کرنے کی جدوجہد شروع کی حالانکہ اس دوران انجمن اتحاد بلوچاں اپنے انجام کو پہنچ چکا تھا۔ لہذا 5 فروری 1937ءمیں ملک فیض محمد یوسف زئی اور میرگل خان نصیر کے ساتھ ملکر ”قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی“ کی بنیاد ان اصولوں پہ رکھ دی کہ ریاست قلات میں آزاد اور جمہوری حکومت کا قیام، مستجار لیے گئے علاقوں کو ریاست قلات میں شامل کرنا، تعلیمی، اقتصادی اور معاشرتی ترقی کے لیے جدوجہد کرنا۔

انہی اصولوں کو بنیاد بنا کر جماعت نے جدوجہد شروع کی اور بہت جلد جماعت نے بلوچوں میں مقبولیت حاصل کیا۔ جس کا اندازہ ہم کارکنان کے خلاف ریاستی کریک ڈاﺅن اور 1948ءکے انتخابات میں جہاں پارٹی کو کالعدم قرار دیا گیا تھا، لیکن پارٹی کے امیداروں کا واضح اکثریت سے کامیابی پارٹی کی ہردلعزیزی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی بلوچستان میں جمہوری حکومت کے قیام اور مکمل قومی آزادی کا خواہاں ہونے کے ساتھ ساتھ تعلیمی، معاشی اور معاشرتی ترقی کے لیے عملی کردار ادا کررہا تھا، لہذا ان کا یہ عمل برطانوی سرکار کے لیے قابل قبول نہیں تھا، کیوں برطانوی سرکار کو اس خطے میں ایک چوکیدار کی ضرورت تھی جو ان کے مفادات کو تحفظ فراہم کرے۔ اسی نقطہ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے برطانوی سرکار نے روایتی رہبروں کو پارٹی اور پارٹی کارکنان کے خلاف اکسانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
4اگست 1947ءکو دہلی میں ہونے والے اجلاس میں خان احمد یار خان، لارڈ ازمے اور جناح نے متفقہ طور پر بلوچستان کی آزادی تسلیم کی۔ اور یوں استعمار کی تایخ کی رو سے سرزمین بلوچستان جو تہذیبوں کا سنگم ہے اور اس کے باسی ہزاروں سالہ تاریخ کے مالک ہیں انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ البتہ تاریخ ہماری رہنمائی کرتی ہے کہ انگریزوں نے معاہدات کے ذریعے چند علاقے حاصل کیے تھے نہ کہ مکمل قبضہ کرکے، لہذا یہ اعلان آزادی بھی ایک ڈھونگ کے سوا اور کچھ نہیں جس میں وہ بلوچستان کو برصغیر کی طرح انگریزوں کی نوآبادی ظاہر کررہے تھے۔ اصولاً تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ جوں ہی انگریز اس خطے سے جارہے تھے بلوچستان کی سابقہ حیثیت یعنی عظیم تر بلوچستان از خود بلوچوں کے زیر تسلط آجا تا جس میں کسی اعلان کی ضرورت ہی نہیں تھی لیکن چونکہ وہ نفسیاتی حوالے سے اپنی برتری ثابت کررہے تھے تا کہ وہ اس کے ثمرات سے آنے والے دنوں میں مستفید ہوسکے اور ہوا بھی یوں ہی جب مختصر مدت کے بعد دور غلامی شروع ہوا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here