جب کوئی انسان کسی عظیم مقصد کے لئے سوچنا شروع کر دیتا ہے اور پھر اس عظیم مقصد کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا ہے یا دوسروں کی دی ہوئی من و عن صورت حال کو للکارتاہے، ظلم، غلامی اورنا انصافی کے لیے جدوجہد کا آغاز کرتا ہے تو وہ امید اور حوصلے کی ایک موہوم سی روشنی کی لہر بھیجتا ہے۔ ایک وقت آتا ہے کہ یہ لہر ایک طوفان کی شکل اختیار کر جاتی ہے جس کے روبرو غلامی،ظلم اور نا انصافی کی دیوہیکل دیواریں ریت کے زرے ثابت ہوتے ہیں۔
وہ معاشرے جو رجعت پرستانہ خیالات کے دلدل میں پوری طرح لتھڑجاتے ہیں تو وہاں سیاسی، معاشی، ثقافتی اور معاشرتی طور پر ایسی نفسیات مسلط کر دی جاتی ہے جس سے سماج لاعلمی اور جہالت کے اندھیرے میں سفر کرتا ہے اور من گھڑت تاریخی تاویلات اور خودساختہ خیالات معاشرے کا حاوی روجحان بن جاتا ہے اور معاشرہ ایک ایسی جکڑ کا شکار ہو جاتا ہے جہاں تاریخی سچائیاں دبیز پردوں میں چھپ جاتی ہیں۔ جن کو آشکار کرنے کے لیے جہاں ایک طرف جرأت، تحقیق اور جستجو کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہیں پر ایک مضبوط سیاسی بیانیہ راہ میں آنے والی رکاوٹوں کا سدباب کرنے میں اہم آلہ کا کام کرتا ہے۔ جرأت، تحقیق، جستجو اور سیاسی بیانیہ بھی اس وقت عملی طور پر کارگر ثابت ہوتی ہے جب عمل کے لیے اداروں کا جال بچھایا جائے۔ ادارتی طرزیا طریقہ کار کسی تحریک کی کامیابی کے لیے ایسی ہے جیسے انسانی جسم کے لیے خون کی گردش، جوں ہی خون کی یہ گردش رک جاتی ہے تو زندگی کا چراغ بجھ جاتا ہے۔ لہذا ہمیں اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ اگر تحریک میں ادارتی طریقہ کار نظروں سے اوجھل ہو تو کامیابی کیسے اور کیوں کر ممکن ہے؟
ہمیں جدید دور کے تقاضوں کے تحت تحریک میں تنظیم اور اس کی ضرورتوں کا جائزہ لینا چائیے جو قومی آزادی کی تحریک کی تشکیل کے لئے لوازمات اور تقاضوں کو ہم آہنگ کر سکے کیونکہ تحریکوں کی واحد پہچان ان کی وہ نظریاتی اسا س ہوتی ہے جو نہ صرف طاقت ہوتی ہے بلکہ ایک ایسا راہ عمل بھی ہوتی ہے جس پر چل کر عوام نہ صرف اپنی آزادی حاصل کر لیتے ہیں بلکہ وہ مستقبل کا ایک نیا معاشرہ اور نیا انسان تخلیق کر لیتے ہیں جو ہر طرح کی عصبیت، نفرت اور بگاڑ سے آزاد ہوتا ہے۔ یہ ایک اہم تاریخی فریضہ ہے جس کا ادراک کرتے ہوئے ہم سماج کو ان بند کمروں سے نکالنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔
آج بلوچ قومی جہد آزادی کو اس امر کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے اس سفر کا جائزہ لیں اور چیزوں کو اداراتی بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے زور دیں۔ہمیں اس بات کومن و عن تسلیم کرنا چاہیے کہ دنیا کی بدلتی ہوئی صورت حال کا اس وقت تک ہم فائدہ نہیں اُٹھا سکتے جب تک ہم جماعتوں اور تنظیموں کو مضبوط کر کے ادارتی بنیادوں پر استوار نہیں کرتے۔ لہذا بلوچ رہنماؤں کو اس جانب زیادہ توجہ مرکوز کرنا چاہیے تاکہ بلوچ تحریک میں موجود جماعتوں اور تنظیموں میں ادارتی طرزِ سیاست پروان چڑھے۔ اس طرز سیاست کو اپناتے ہوئے ہمیں نہ صرف آنے والے دنوں میں معاملہ فہم رہنما مل جائیں گے بلکہ سماج اور تحریک کے رشتے کو بھی مضبوط بنیاد فراہم کرنے کی راہ ہموار ہوگی۔